جمعه: 1403/01/10
نسخه مناسب چاپSend by email
اسلامي عدالتی قوانين كي بنياد پر مسئلہ فدك كا حل و فصل

سوال : اگر فدك كے مسئلے میں مخالفین یہ اعتراض كریں كہ " عدالتی قوانین كے لحاظ سے حضرت صدیقہ طاہرہ علیھا السلام كا دعویٰ ثابت نہیں ہو سكا ، جس طرح امیرالمومنین علیہ السلام قاضی كے سامنے اپنی زرہ كے لئے كوئی دلیل قائم نہ كر سكے اور مولائے كائنات كے گماشتہ قاضی نے ان كی عصمت كی پروا كئے بغیر ان كے خلاف فیصلہ دیا ، تو اس كا كیا جواب دیا جا سكتا ہے ۔
جواب : فدك كے غصب كے سلسلے میں ابوبكر اور اس كے ہمنوا لوگوں كا رویہ اسلامی عدالتی قوانین كے بالكل خلاف تھا ، اور یہ بات واضح تھی كہ ان كی روش معمول كے مطابق اور بے غرض نہ تھی ۔ 
یہ مسئلہ خالص سیاسی مسئلہ تھا جس كو ابوبكر اور اس كی ہمنوا جماعت كے ذاتی اغراض كی بنیاد پر حل كیا گیا ۔ یہ گروہ خدا و رسول كے صریح حكم كے خلاف خاص كر متواتر حدیث ثقلین اور غدیر خم كے علانیہ اعلان كے باوجود مسئلہ امامت و خلافت كو وحی الٰہی كے ذریعہ منصوص راستے سے ہٹا كر اپنی ہویٰ و ہوس كے مطابق چلانا چاہتا تھا ۔ 
البتہ امامت و خلافت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے راستے كو كوئی بدل نہیں سكتا چونكہ وہ حكم خدا سے معین ہو چكا ہے اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (عج) كے ظہور تك اسی راستے پر گامزن رہے گا ۔ 
یہ گروہ چاہتا تھا كہ ظاہری صورت حال كو تبدیل كر دے تاكہ اپنے مقصد كو حاصل كر سكے ، جبكہ جس طرح كسی كی شرعی ملكیت میں غصبی تصرف كرنے سے مالك كی ملكیت پر كوئی فرق نہیں پڑتا اور مغصوب ملكیت اصلی مالك كی ملكیت میں باقی رہتی ہے اور غاصب ضامن ہوتا ہے اسی طرح امامت و خلافت كا عہدہ بھی صاحبان ولایت و امامت كی ملكیت میں باقی ہے اسے حقیقت میں كوئی ان سے چھیں نہیں سكتا ہے ۔ 
جس چیز كو غصب كیا گیا وہ اس شرعی منصب كی ظاہری ریاست و حكومت تھی جس كی تمنا ان جاہ طلب لوگوں كو ہمیشہ سے تھی جبكہ اس منصب كے حقیقی عہدیدار اس حقیقی منصب كو مد نظر ركھتے تھے جیسا كہ امیرالمومنین علیہ السلام نے ابن عباس كے جواب میں اس كی وضاحت فرمائی ہے ۔ (نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳)
معتبر كتابوں كی بنیاد پر یہ ریاست طلب گروہ جو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے زمانے سے ہی تباہی كا منصوبہ بنا چكا تھا ، اس نے اسلامی سیاست و حكومت كے راستے كو اس طرح تبدیل كر دیا كہ اس كے بعد آنے والی حكومتیں بدترین نظام كی حامل ، ظالم ترین ، بے رحم اور بے دین ترین اور عیاش حكومتیں تھیں جو مسلمانوں پر مسلط ہوئیں ۔ 
یہ گروہ جس نے پیغمبر (ص) كی عمر مبارك كے آخری ایام میں اپنے موقف كا علانیہ اظہار كرنا شروع كر دیا تھا اور واقعہ یوم الخمیس میں جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے كاغذ اور قلم دریافت كیا تاكہ وہ چیز لكھ دیں جس كے بعد مسلمان كبھی گمراہ نہ ہوں اوراسی طرح لشكر اسامہ میں شامل ہونے پر مبنی پیغمبر(ص) كے حكم كی مخالفت كیا اور رحمۃ للعالمین كے جنازے كو چھوڑ كر سقیفہ میں اكٹھا ہوكر اس غلط عمارت كی بنیاد ركھی ۔ 
سقیفہ كے سیاسی منصوبے میں لوگوں كو ڈرایا دھمكایا گیا ، عمر بن الخطاب نے بہت ہی شدت و سختی كے ساتھ ننگی تلوار لے كر مدینہ كی گلیوں میں لوگوں كو ابوبكر كی بیعت كرنے پر مجبور كیا ۔ 
اس سلسلے میں شروع ہی میں بلكہ سب سے پہلے جو كام كیا گیا وہ پیغمبر(ص) كی اكلوتی بیٹی سیدہ نساء العالمین اور جنت كی عورتوں كی سردار كی جائداد پر قبضہ تھا ، چونكہ انھیں یقین تھا كہ جناب فاطمہ ایسی صاحب ایثار ہیں كہ ان كے پاس جو كچھ بھی ہے اسے راہ خدا میں ضرورتمند مسلمانوں كے درمیان تقسیم كر دیں گی اور اس طرح سے خاندان رسالت كی محبت لوگوں كے دلوں میں برقرار رہے گی ۔ اس لئے انھوں نے یہ فیصلہ كیا كہ ان كے تمام اموال كو ان سے چھین لیں تاكہ وہ لوگوں كی مدد اور اعانت نہ كر سكیں ۔ 
عمر ابوبكر اور ابوعبیدہ كی پارٹی كے سامنے فدك غصب كرنے میں صرف یہی مصلحت دركار تھی كہ ان كو حكومت مل جائے لیكن حالات اتنے سخت اور غیر معمولی تھے كہ خوف و ہراس كی وجہ سے كوئی یہ بات نہ كہہ سكا یا اگر كسی نے كہا بھی تو اس كی بات پر توجہ نہیں كی گئی ۔ 
بر فرض فدك حضرت زہرا(س) كی ذاتی ملكیت نہ رہا ہو اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس كی درآمد سے استفادہ كرنے كے لئے یا كسی بھی دوسری مصلحت كے لئے انھیں دیا تھا تو كس طرح آنحضرت كی وفات كے بعد اچانك ساری مصلحتیں تبدیل ہو گئیں اور پیغمبر كا حكم جسے انھوں نے فرمان خدا كی بنیاد پر دیا تھا اسے غلط قرار دے دیا گیا ؟ 
فدك اگر عائشہ اور حفصہ كے پاس ہوتا تو كیا ابوبكر و عمر ان سے بھی چھین لیتے ؟ یا پھر ان كی تائید و تصدیق كرتے ، اور اگر سارے مسلمان مل كر فدك ان سے واپس لینے كا مطالبہ كرتے تو یہ عذر پیش كرتے ہوئے كہ پیغمبر (ص) كے عمل كی تردید نہیں كی جاسكتی ، مسلمانوں كے تقاضے كو ٹھكرا دیا جاتا ؟ 
نتیجہ یہ كہ فدك كا مسئلہ اتنا سادہ نہ تھا بلكہ حكومت اور ریاست كا مسئلہ تھا اور اس مسئلے میں جناب فاطمہ زہرا(س) كی تصدیق كر دینے سے اہل سقیفہ كی ساری مكاری و عیاری پر پانی پھر جاتا ۔ 
ہم اس وقت اہل سقیفہ كے ان منصوبوں كے پس پردہ چھپے ہوئے راز كی بحث نہیں كرنا چاہتے بلكہ صرف عدالتی قوانین كے لحاظ سے اس مسئلہ پر ایك نظر كریں گے ۔
یہ بات تو یقینی ہے كہ فدك كوئی چیز تھی اور اسے پیغمبر (ص) نے حكم خدا سے حضرت زہرا(س) كے حوالے كیا تھا ۔ 
اس بخشش اور عطا كا مطلب یہ ہے كہ نبی نے فدك ان كی ملكیت میں دیا ہے جس كے بعد نہ حضرت زہرا (س) نہ كسی دوسرے كو ملكیت كے علاوہ كوئی دوسرا احتمال بھی نہیں تھا ۔ چونكہ یہ عطا حكم خدا سے تھی اس لئے اس كو لوٹانے كے لئے بھی وحی كی ضرورت پڑے گی ، میرا مطلب ہے كہ خود رسولخدا(ص) كو بھی بغیر وحی اور حكم الٰہی كے فدك واپس لینے كی اجازت نہیں تھی ، چونكہ یہ كام وحی الٰہی سے انجام پایا تھا اس لئے اسے بدلنے كا كسی كو بھی اختیار نہیں تھا ۔ 
اس لئے یہ بات واضح تھی كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رابطہ وحی ختم ہوجانے كے بعد كسی كو حضرت زہرا(س) سے فدك واپس لینے كا اختیار نہیں تھا ۔ 
اس كے باوجود ہم مقام رسالت سے پست لوگوں كی جانب سے فدك كی واپسی كے مطالبہ كے مسئلے كو تفصیل سے یہاں پر پیش كریں گے ۔ 
الف : عدالت میں پیش ہونے والے ہر مقدمے كے تین اساسی ركن ہوتے ہیں ۔ 
اول : مدعی ( جس نے دعویٰ پیش كیا ہو )
دوم : مدعیٰ علیہ ( جس كے خلاف دعویٰ پیش كیا گیا ہو )
سوم : قاضی و حاكم ( فیصلہ كرنے والا)
جس طرح مدعی اور مدعیٰ علیہ كا الگ الگ ہونا ضروری ہے، اسی طرح ضروری ہے كہ مدعی اور قاضی بھی الگ الگ ہوں ، دونوں كا عنوان الگ ہونا كافی نہیں ہے مثال كے طور پر ایك آدمی كسی بچہ كا ولی ہونے كے عنوان سے اپنے اوپر كوئی دعویٰ پیش كرے ، یا بچہ كے ولی پر اپنی طرف سے كوئی دعویٰ پیش كرے ۔ 
غصب فدك كے واقعہ میں ابوبكر باوجود اس كے كہ خود مدعی تھے اور اس اعتبار سے كہ لوگوں كے حاكم ہونے كے دعویدار تھے وہ كس طرح خود كو قاضی سمجھنے لگے اور كس طرح انھوں نے حضرت زہرا(س) سے گواہ طلب كیا تاكہ وہ اپنے اور حضرت زہرا(س) كے درمیان فیصلہ كر سكے ۔ 
ب : علی القاعدہ مقدمات كا فیصلہ ایسی عدالت میں ہونا چاہئے جس كو مقدمہ كے طرفین قبول ركھتے ہوں اور مدعی كو ایسی عدالت میں مقدمہ پیش كرنا چاہئے جبكہ اس وقت نہ ایسی كوئی عدالت موجود تھی نہ حضرت زہرا(س) علی علیہ السلام كے علاوہ كسی كو حكومت اور قضاوت كا اہل سمجھتی تھیں۔
ابوبكر بھی باوجود اس كے كہ پیغمبر(ص) نے فرمایا تھا كہ اقضاكم علی " علی سب سے بڑے قاضی ہیں " كبھی اس مقدمے كو علی (ع)كے پاس نہ لے جاتے اور اس وقت تك ابوبكر نے كسی كو قاضی بھی معین نہیں كیا تھا اور اگر اس نے معین بھی كیا ہوتا تو اسے حضرت زہرا(س) قبول نہ كرتیں چونكہ وہ نصب كرنے والے اور منصوب كسی كو مشروع اور جائز نہیں سمجھتی تھیں ۔ 
ج ۔ اگر یہ كہا جائے : ابوبكر خود كو مسلمانوں كا حاكم سمجھتا تھا اس لئے وہ خود كو اس بات كا حقدار جانتا تھا كہ مسلمانوں كی طرف سے مدعیٰ پیش كرے اور ولی امر مسلمین ہونے كے لحاظ سے خود اس كا فیصلہ بھی كرے ۔ 
اس كا جواب یہ ہے كہ ابوبكر اور اس كے ساتھی جس بنیاد پر حكومت كو اجماعی اور اتفاقی بتانا چاہتے تھے وہ اجماع اور اتفاق شیعہ و سنی دونوں كی نظر میں فدك كے غصب تك محقق ہی نہیں ہوا تھا اس لئے كہ تمام مورخین كا اتفاق ہے كہ جب تك فاطمہ زندہ تھیں بنی ہاشم اور غیر بنی ہاشم كی بعض معروف شخصیتوں نے ابوبكر كی بیعت نہیں كی تھی ، جبكہ وہ شخصیات اہل حل و عقد میں سے تھیں اور جب تك حضرت زہرا(س) زندہ تھیں ابوبكر كی جماعت تمام ظلم و ستم كے باوجود ان سے بیعت نہیں لے سكی تھی اور دوسروں سے جو بیعت لی گئی تھی وہ بھی ڈرا دھمكا كر لی گئی تھی ۔ 
اس لئے خود انھیں كے نظریہ كی بنیاد پر اس وقت تك ان كی حكومت قانونی ہی نہیں تھی كہ اس كے لئے اس طرح كے تصرفات اور ہر طرح كے امور میں مداخلت جائز رہی ہو ۔ 
د ۔ ہمیں اس بات سے انكار نہیں كہ اگر حكومت مشروع اور قانونی ہو تو حاكم لوگوں كے مقدمات كا فیصلہ بھی كر سكتا ہے اور لوگوں كی طرف سے مقدمہ پیش بھی كر سكتا ہے لیكن ایك ہی واقعہ میں یہ بات عقل و منطق كے خلاف ہے كہ مدعی اور منصف ایك ہو۔ اس كی سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی كوئی مثال نہیں ملتی ہے كہ ایك ہی مسئلہ میں حاكم مدعی بھی ہو اور قاضی بھی ، دوسرے یہ كہ اس سے یہ بات لازم آتی ہے كہ مدعی اپنے دعوے پر بھی یقین ركھتا ہے اور چونكہ قاضی ہے اس لئے اپنے علم كی بنیاد پر فیصلہ بھی كر سكتا ہے ۔ ( یعنی اسے گواہ اور شاہد كی بھی ضرورت نہیں ہوگی ) 
ھ ۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہے كہ اگر ابو بكر خود مدعی اور قاضی تھا جیسا كہ اس واقعہ میں اس نے كیا، تو اگر اسے اس بات كا یقین تھا كہ فدك مسلمانوں كا حق ہے اور حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا نے ۔ العیاذ باللہ ۔ ناحق اس پر قبضہ جما ركھا ہے تو كیوں جناب فاطمہ سے اس نے گواہ طلب كیا اور اپنے علم پر عمل كیوں نہیں كیا ؟ اور اگر اسے اس كا یقین نہیں تھا بلكہ اس بات كا احتمال بھی تھا كہ ہو سكتا ہے جناب فاطمہ (س) حق پر ہوں تو كیوں اس نے یہ دعویٰ پیش كیا اور فدك كو اپنے قبضے میں لیا چونكہ مدعی كو اپنے دعوے كا یقین ہونا چاہئے ۔ 
اگر یہاں پر قاعدہ استصحاب بقای ملكیت جاری ہو تو اس كا نتیجہ صرف یہ ہوگا كہ صاحب ید مدعی سمجھا جائے اور اس سے بینہ طلب كیا جائے لیكن صرف استصحاب كی بنا پر دعویٰ پیش كرنا اور پھر اسے صاحب ید كے خلاف قرار دینا صحیح نہیں ہے ۔ مثال كے طور پر اگر زید كے باپ كا گھر عمرو كے ہاتھوں میں ہو جو یہ دعویٰ كرے كہ اس نے اس گھر كو زید كے باپ سے خریدا ہے اور زید یہ چاہے كہ چونكہ یہ گھر پہلے اس كے باپ كی ملكیت میں تھا اس بنا پر استصحاب جاری كرتے ہوئے عمرو كو غاصب اور ظالم كہہ كر عدالت میں مقدمہ پیش كرنا چاہے تو اس كا یہ دعویٰ قابل قبول نہیں ہے ۔ 
ان تمام ملاحظات كے بعد پتہ چلتا ہے كہ حضرت زہرا سلام اللہ علیھا كے حق كو غصب كرنے میں كسی طرح كی عدالتی قوانین كی رعایت نہیں كی گئی تھی بلكہ جاہ طلب منافقین كا حسد و كینہ جو زمانہ جاہلیت سے كچھ لوگوں ، خاص كر ان دونوں كے دلوں میں تھا ، اس كی بنیاد پر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی اكلوتی بیٹی پر یہ ظلم و ستم روا ركھا گیا تھا ۔ 
ان تمام نكات كے مد نظر جو چیز ان ظالموں كے نفاق كو ثابت كرتی ہے اور اس بات كی تصدیق كرتی ہے كہ یہ سچے دل سے وحی و رسالت پر بھی ایمان نہیں ركھتے تھے وہ یہ ہے كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی بارہا تاكید اور تصریح اور آیت تطہیر كے نزول كے باوجود انھیں حضرت زہرا كی طہارت و صداقت میں شك تھا ۔ اور اگر انھیں اس بات میں شك تھا تو كس طرح ہم مان لیں كہ ان كا رسالت پر ایمان مكمل تھا ؟ اور اگر شك نہیں تھا تو اس طرح كے ظلم و ستم كے مرتكب كیوں ہوئے ؟ 
كیا یہی اجر رسالت كی ادائگی تھی ، اس پیغمبر كی رسالت كا اجر جس نے ہدایت كی راہ میں كتنی مصیبتیں اور اذیتیں برداشت كی تھیں ، اس كے اجر كی ادائگی یہی تھی كہ اس كی اكلوتی بیٹی كو اس طرح رنجیدہ كیا جائے ۔ 
كیا اگر فدك مسلمانوں كا حق تھا تو جس طرح پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حكم خدا سے حضرت زہرا (س) كے حوالے كیا تھا اسی طرح ابوبكر خدا و رسول كی پیروی كرتے ہوئے اسے حضرت زہرا(س) كو دے دیتے تو كیا كوئی مسلمان اعتراض كرتا ؟ 
یقیناً كوئی مسلمان ۔ سوائے ان لوگوں كے جو یہ نہیں چاہتے تھے كہ فدك حضرت زہرا(س) كے ہاتھوں میں رہے ۔ آنحضرت سے فدك واپس لینے كا مطالبہ نہ كرتا ۔ و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون 
اور واقعہ غصب فدك میں حضرت زہرا(س) سے گواہ كے مطالبہ كو امیرالمومنین علیہ السلام كی زرہ كے واقعہ سے مقایسہ كرنا صحیح نہیں چونكہ دونوں میں بہت ہی فرق ہے ۔ 
اول : زرہ كے واقعہ میں صاحب ید سے بینہ كا مطالبہ نہیں كیا گیا جو كہ عدالت كے قانون كے خلاف ہے ، جبكہ فدك كے واقعہ میں حضرت زہرا(س) جو صاحب ید تھیں ان سے بینہ طلب كیا گیا ۔ 
دوم : جیسا كہ ہم پہلے بتا چكے ہیں كہ یہ مقدمہ معمول كے مطابق نہ تھا بلكہ سیاسی اغراض كے تحت تھا ۔ 
سوم : قاضی شریح اگر چہ امیرالمومنین كے زمانے میں بھی قاضی تھا لیكن وہ بھی انھیں ظالموں میں سے تھا جنہوں نے حضرت زہرا(س) سے فدك چھینا تھا اور امیرالمومنین (ع) نے كسی مصلحت كی بنیاد پر اسے معزول نہیں كیا تھا ، اسی لئے امام علیہ السلام نے اس كے حكم كے نفاذ كے لئے ایسا راستہ اختیار كیا كہ جس سے لوگوں كا حق ضائع نہ ہونے پائے ۔ 
بنا بر این اس جیسے آدمی سے اس كے علاوہ كوئی توقع نہیں كی جا سكتی امیرالمومنین علیہ السلام كے مسئلے میں اس طرح كی برخورد كرے اور پھر حقیقت كا علم ہونے كے بعد حكم صادر كرے ۔ اگر اس كی جگہ مالك اشتر یا عمار یاسر یا آنحضرت كے مقام و منزلت كو پہچاننے والے اصحاب ہوتے تو اپنے علم كی بنیاد پر فیصلہ كرتے ۔لیكن جب اس غلط سنت كی بنیاد پڑ چكی اور فدك كے مسئلے میں حضرت زہرا (س) سے گواہ مانگ كر ان كا حق غصب كر لیا ، ان كی طہارت و صداقت اور منصوص عصمت كا پاس نہ ركھا گیا تو اس كے بعد عدالت كا یہی طریقہ بن گیا كہ امیرالمومنین علیہ السلام جو صاحب ید نہ تھے ان سے بھی بینہ طلب كیا جائے ۔ 
البتہ ایك احتمال یہ بھی ہے كہ (اگر اس حدیث كی سند صحیح ہو ) تو امیرالمومنین علیہ السلام نے شریح كے فیصلے پر كوئی اعتراض اس لئے نہیں كیا كہ خود آنحضرت نے اس طرح فیصلہ كرنے كا حكم دیا تھا تاكہ وہ آدمی اسلام سے مانوس ہو كر ایمان لا سكے ، جیسا كہ اس نے بعد میں اسلام قبول كر لیا یا یہ وجہ رہی ہو كہ چونكہ اس شخص نے اسلام قبول كر لیا اس لئے امام علیہ السلام نے شریح كے فیصلے پر كوئی اعتراض نہیں كیا۔
مختصر یہ كہ ان دو وواقعات میں سے پہلا واقعہ ایك منصوبہ بند اور سیاسی مقاصد كے تحت انجام دیا گیا اور دوسرا واقعہ ایك معمولی واقعہ تھا كہ جس میں امیرالمومنین علیہ السلام كی بزرگی اور سخاوت كا مظاہرہ كیا جا سكتا ہے ، اس لئے دونوں كو كسی صورت مقایسہ نہیں كیا جا سكتا ہے ۔

و الحمدلله اولاً و آخراً و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین ۔

يكشنبه / 21 دى / 1393