سه شنبه: 1403/01/28
نسخه مناسب چاپSend by email
میلاد مولود کعبہ

میلاد مولود كعبہ (ولادت با سعادت مولائے كائنات علیہ السلام)

مولائے كائنات ۱۳رجب جمعہ كے دن سنہ ۳۰ عام الفیل كو مكہ مكرمہ میں خانہ كعبہ میں  پیدا ہوئے ۔ ( خصائص الائمہ ، ص/ ۳۹ ؛ تہذیب الاحكام ، ج/۶،ص/ ۱۹ )
علامہ امینی رحمہ اللہ آپ كی جائے ولادت اور اس بے نظیر فضیلت كے بارے میں لكھتے ہیں : 
یہ ایك واضح حقیقت ہے جس پر فریقین كا اتفاق ہے اور اس سلسلے میں کتابیں متواتر احادیث سے بھری ہوئی ہیں اس لئے میں اس مقام پر بیہودہ  اے بے جا  بات كرنے والوں كی باتوں كو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہوں ۔ چونكہ شیعہ اور اہلسنت دونوں فرقوں كے بزرگ علماء نے اس واقعہ كی روایتوں كے متواتر ہونے كی تصدیق كی ہے ۔ ( الغدیر ، ج/۶، ص/۲۲ )
المستدرك علی الصحیحین : متواتر روایات اس بات پر دلالت ركھتی ہیں كہ فاطمہ بنت اسد نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام كو كعبہ كے اندر جنم دیا ۔ ( المستدرك علی الصحیحین ، ج/۳، ص/ ۵۵۰ حدیث ۶۰۴۴)

روضۃ الواعظین نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل كیا ہے كہ پیغمبر خدا(ص) سے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام كی ولادت كے بارے میں پوچھا : 
آپ نے فرمایا : " واہ ، واہ ! تم نے مجھ سے میرے بعد سنت عیسیٰ علیہ السلام پر پیدا ہونے والے سب سے بہتر مولود كے بارے میں پوچھا ہے ، خدائے تبارك و تعالیٰ نے مجھے اور علی كو ایك نور سے پیدا كیا ، آدم كے صلب سے ہم پاك صلبوں سے پاكیزہ ارحام میں منتقل ہوتے رہے یہاں تك كہ خدائے عزوجل نے مجھے جناب عبداللہ بن عبدالمطلب كے پاك صلب سے ظاہر فرمایا اور مجھے بہترین رحم یعنی جناب آمنہ كے رحم میں قرار دیا ، پھر خداوند تبارك و تعالیٰ نے علی كو جناب ابوطالب كے صلب سے ظاہر فرمایا اور ان كے نور كو بہترین رحم یعنی فاطمہ بنت اسد كے رحم میں قرار دیا " (روضۃ الواعظین ، ص/۸۸)
ارشاد شیخ مفید  میں شیخ مفیدرحمہ اللہ نقل کرتے ہیں كہ علی علیہ السلام  ۱۳ رجب سنہ ۳۰ عام الفیل جمعہ كے دن مكہ مكرمہ میں خانۂ كعبہ كے اندر پیدا ہوئے اور ان كے علاوہ كوئی بھی مولود نہ ان سے پہلے ، اورنہ ان كے بعد خانہ خدا میں پیدا نہیں ہوا اور یہ اس وجہ سے تھا كہ خداوند عالم نے ان كے مقام و منزلت كو بلند فرمایا تھا ۔ (الارشاد ، ج/۱، ص/۵ )
علل الشرائع میں  شیخ صدوق علیہ الرحمہ سعید بن جبیر سے نقل كرتے ہیں كہ یزید بن قعنب ناقل ہیں كہ میں عباس بن عبدالمطلب اور قبیلہ عبدالعزیٰ كے ایك گروہ كے ساتھ كعبہ كے سامنے بیٹھا ہوا تھا كہ اچانك امیرالمومنین علیہ السلام كی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد آئیں ۔ ان كے حمل كا نواں مہینہ چل رہا تھا اور زائمان كا درد شروع ہو چكا تھا ، انھوں نے عرض كی : خدایا! میں تجھ پر تیری جانب سے آنے والے انبیاء اور كتابوں پر ایمان ركھتی ہوں اور اپنے جد ابراہیم كی باتوں كی تصدیق كرتی ہوں كہ انھوں نے تیرے قدیمی گھر كی تعمیر كی ، پس اس گھر كے بنانے والے كے حق كی قسم ! اور میرے شكم میں موجود بچے كے حق كا واسطہ میری مشكل كو آسان فرما ۔ 
یزید بن قعنب كہتے ہیں : ہم نے دیكھا كہ كعبہ كی پچھلی دیوار میں شگاف ہوا اور فاطمہ داخل ہو گئیں اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئیں اور كعبہ كی دیوار مل گئی ، ہم نے كعبہ كا تالا كھولنا چاہا تو وہ بھی نہ كھل سكا تو ہمیں یہ یقین ہو گیا كہ یہ امر خداوند عالم كی جانب سے ہے ۔ 
پھر فاطمہ چار دن كے بعد باہر آئیں اس عالم میں كہ آپ كے ہاتھوں پر علی علیہ السلام موجود تھے پھر انھوں نے فرمایا : میں گزشتہ تمام عورتوں پر برتری ركھتی ہوں چونكہ آسیہ بنت مزاحم نے خدا كی عبادت ایسی جگہ پر كی كہ جہاں پر خدا صرف مجبوری كے عالم میں عبادت پسند كرتا ہے ، مریم بنت عمران نے خرما كے سوكھے درخت كو ہلایا تو اس سے تازہ خرمے گرے جبكہ میں خدا كے محترم گھر كے اندر گئی اور وہاں بہشتی غذاؤں اور پھلوں سے سیراب ہوئی ۔ ( علل الشرائع ، ج/۳ ، ص/۱۳۵)
اقتباس : دانشنامۂ امیرالمومنین علیہ السلام ، ج/۱، بخش اول ، فصل اول 

 

شنبه / 26 فروردين / 1396