پنجشنبه: 1403/01/9
Printer-friendly versionSend by email
ایک بیٹی کا امام زمانہ(عج) سے خط میں شکوہ کرنا اور مرجع عالیقدر کے خوبصورت جوابات

ایک بیٹی کا امام زمانہ(عج) سے خط میں شکوہ کرنا اور مرجع عالیقدر کے خوبصورت جوابات

میں یہ خط امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں لکھ رہی ہوں اور چونکہ میں نے آنحضرت کو درک نہیں کیا لہذا میں اس کا جواب آپ سے چاہتی ہوں کیونکہ آپ آنحضرت کے نمائندہ ہیں:

میں نہیں جانتی کہ آپ کون ہیں؟شاید ہو سکتا ہے کہ آپ کا وجود بھی نہ ہو،بلکہ صرف ایک وہم و خیال!یا پھر مطلق ناامیدی میں ایک امید کہ جس کی پناہ مانگتی ہوں۔چونکہ اگر مجھے آپ پر یقین ہوتا تو آپ کا میری حقیقی زندگی میں ایک خاص مقام ہوتا۔

اے امام عصر! اے میرے سرور و سردار! تو مجھے اس نفرت سے دور رکھ۔۔۔اب میں مزید پیش قدمی نہیں کر سکتی۔۔۔ میں ہر چیز سے متنفر ہو چکی ہوں۔۔۔۔میں جتنا آگے بڑھتی ہوں میری نفرت میں اسی قدر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔اور زندگی و سماج بھی اس نفرت میں میری حوصلہ افزائی کرتا ہے۔۔۔اے امام عصر!میں اپنی صنف کی وجہ مشکلات سے دچار ہوں۔۔۔میں سرکش و باغی لڑکی ہوں۔۔۔اور جس دین کے ذریعہ میں تجھے پہچانتی ہوں ،وہ مجھے گناہوں کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔وہ مجھے سرکشی و بغاوت پر مجبور کرتا ہے۔۔۔میں کسی تعارف کے بغیر یہ سب  کچھ کہہ رہی ہوں؟!میں شرمندہ ہوں لیکن۔۔۔میری نفرت میں اضافہ ہو رہاہے۔اس کی ہر چیز سے ،نہ صرف اس کی بعض چیزوں سے،،،،دوسرے تمام ادیان اور تمام انسانوں کی طرح تیرا دین بھی میری صنف پر ظلم کرتا ہے۔۔۔میری توہین و تحقیر کرتا ہے۔۔۔مجھے دوسرے درجہ کا انسان خیال کرتاہے۔

اے امام عصر !مجھے معاف فرمائیں۔۔۔لیکن میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے لہذا میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں۔۔۔میری اس جسارت کو اپنے بےنظیر دامن عفو و کرم اور فہم و بخشش میں جگہ عنائت فرمائیں۔مجھے اس وقت اپنے احساسات پر قابو نہیں ہے۔۔۔میں تنہا رو رہی ہوں اور یہ خط لکھ رہی ہوں اور میں آپ کی پناہ میں آتی ہوں تا کہ مجھے ان جان فرسا سوالوں سے نجات دیں۔میں یہ سوچتی ہوں کہ آپ پیغمبر خداؐ کے فرزند ہیں اور وہ رؤف و بردبار تھے۔

پس میری اس جسارت سےدرگذر فرمائیں چونکہ یہ آپ سے  ایک گناہگار و نادان انسان کی بے پناہ محبت کا نتیجہ ہے۔میں نے ان لوگوں کے بے شمار واقعات پڑھے ہیں جنہوں نے آپ کو درک کیا اور آپ کے ساتھ نشت و برخاست کی۔۔۔اور بارہا میرے دل نے ان کی اس حالت پر رشک کیا۔۔۔چونکہ آُ پ جیسی ہستی کے ساتھ ایک لمحہ کے لئے بھی ہمنیشی ابدی سعادت ہے کہ جس کو یاد کر کے مستقبل کی بھی تمام تلخیوں اور بدبختیوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔

میں ایک مسلمان لڑکی ہوں اور میں نے زندگی میں یہی کوشش کی  ہےکہ گناہان کبیرہ سے دور رہوں اور گناہان صغیرہ کو بھی آہستہ آہستہ ترک کر دوں۔۔۔میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئی کہ جہاں اسلامی احکامات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔۔۔لیکن سولہ سال کی عمر میں میں نے یہ ارادہ کیا کہ اوروں کے مقابلہ میں کچھ مختلف رہوں۔۔۔۔تب تک نہ تو میں نماز پڑھتی تھی اور نہ ہی حجاب کرتی تھی اور۔۔۔مگر میں مطیع بن گئی اور میں نے اپنی زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔

کئی سال گذر گئے اور میں چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے بھی امان میں تھی اور میں اپنی جانب خدا کی خاص توجہ محسوس کرتی تھی۔

میں نے نوجوانی کے طوفان کو سلامتی کے ساحل تک پہنچا دیا اور گناہ کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔۔۔لیکن بائیس سال کی عمر میں فکری پختگی اور عقلی کمال کے ساتھ آہستہ آہستہ میری قوت تحلیل ہونے لگی۔۔۔اور میرے ذہن میں بے جواب سوالات نے جنم لیئے۔ اور مجھ سے گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا ۔۔۔بہت بڑا گناہ۔

میں آپ سے معافی طلب کرتی ہوں اور اپنے گناہگار چہرے کوخاک پر رکھتی ہوں۔۔۔چونکہ آپ کے دوستوں نے مجھ سے یہ کہا کہ آپ ہر ہفتہ اپنے شیعوں کا نامۂ اعمال پڑھتے ہیں۔۔۔لیکن آپ میرے ان آنسوں کی پروا  نہ کریں اور مجھ سے امید نہ رکھیں۔چونکہ میرے اندر ہمیشہ کے لئے ترک گناہ کا عزم نہیں ہے۔یہ آنسو صرف ایک بیزاری و پشیمانی کی عکاسی کر رہے ہیں۔میرے اندر بھی آپ اہلبیت کے اکثر دوسرے اور تیسرے درجہ کے دوستوں اور محبوں کی طرح گناہ ترک کرنے کی توانائی نہیں ہے۔ اور میں یہ جانتی ہوں کہ آپ کو بھی اپنے حقیقی اور پہلے درجہ کے دوستوں اور محبوں سے امید ہے۔۔۔اور میں آپ کو یہ حق دیتی ہوں کہ آپ ان کا خیال کریں اور انہیں کی جانب توجہ کریں۔۔۔میں جانتی ہوں کہ میرے نامۂ اعمال سے آپ کو صدمہ ہوا ہو گا۔ایک روشن و درخشاں نامہ اعمال کہ جو ایک ہی لمحہ میں سیاہ ہو گیا۔۔۔لیکن آپ میرے سوالوں کا جواب دیں۔شاید میں خود کو قانع کر سکوں اور پھر سے مسلم ایمان کے ساتھ اطمینان سے خدائے متعال کی جانب گامزن ہو جاؤں۔

اے عظیم اور عالم امام!اے وہ ذات کہ جس کے اختیار میں تمام علوم الٰہیہ ہیں۔۔۔ اے بزرگ اور بردبار ذات!مجھ میں خدا کی مصلحت کو سمجھنے کی تواناتی نہیں ہے۔۔۔شک وتردید اور سوالات میرے پیروں میں لغزش پیداکرتے ہیں۔ادرکنی ۔اور اب یہ چند سوال:

۱۔کیوں ہماری اور اہلسنت کی فقہ میں شیر خوار بچی کو باپ کی اجازت سے کسی شخص کے عقد میں دے سکتے ہیں کہ اور وہ اس سے دخول کے علاوہ ہر قسم کی لذت حاصل کر سکتا ہے؟کیا اس بچی کوعمر کے اس حصہ میں روحانی اور نفسانی طور پر ہزار مرتبہ اذیت نہیں ہوتی؟کیا وہ بالغ و عاقل ہونے کے بعد اپنے باپ اور شوہر کو معاف کر سکتی ہے؟کیوں پیدائش سے لے کر موت تک مردوں کو ہی ہم پر سو فیصد تسلط حاصل ہے؟کیا ہم خدا کی دوسرے درجہ کی مخلوق ہیں؟کیوں خدا نے ہمیں اس طرح سے خلق کیا ہے؟میں نہیں چاہتی کہ یہ سب ظلم برداشت کروں۔۔۔میں یہ نہیں چاہتی۔

۲۔کیا مرد اس قدر پاک اور بزرگوار ہیں کہ ایک بچی اس کے ہاتھ سونپ دی جائے اور پھر مطمئن ہو جائیں کہ وہ بلوغ تک اس کی طرف دستدرازی نہیں کرے گا؟نیز فقہ میں ذکر ہوا ہے کہ عمر کے جس حصہ میں بھی دخول کو برداشت کر لے وہ یہ کام کر سکتی ہے۔یعنی لڑکی مردوں کے لئے خلق کی گئی ہے کہ جب بھی وہ یہ برداشت کر سکے ،اسے مکمل عورت خیال کر لیاجائے؟اور اگر وہ حاملہ ہو جائے تو کیا وہ وضع حمل کی توانائی رکھتی ہے؟اور اگر وہ بالغ ہونے کے بعد اس مرد کو پسند نہ کرتی ہو کہ جو اس کی چاہت اور مرضی کے بغیر اس کا شوہر بن گیا تو پھر کیا حکم ہے؟کیا طلاق لے لے؟پھر کس کے ساتھ شادی کرے؟کیا اس کی پسند کا لڑکا اسے چاہے گا؟جب وہ مکمل عورت بن چکی ہے اور بچپن میں ہی جنسی عمل سے اس پر ہزاروں نفسانی ضربیں لگ چکی ہیں ،تو کیا یہ عورت ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار سکتی ہے؟اور کیا یہ خدا کی طرف گامزن ہو سکتی ہے؟ایسے میں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟وہ اپنا نفسیاتی تعادل کھو دیتی ہے ،استحصال کا شکار ہو جاتی ہے،تو ان سب کا گناہ کس پر ہے؟کیا ان سیاہ و تاریک دنوں میں تباہ ہو جانے والے زندگی کے لمحات کی تلافی کی جا سکتی ہے؟

۳۔کیوں ایک مرد جب چاہے اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے حتی اگر اس کی بیوی طلاق لینے پر راضی نہ بھی ہو؟لیکن عورت طلاق نہیں لے سکتی مگر بہت ہی سخت و دشوار حالات اور شرائط کے ساتھ؟

۴۔اگر شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو  پچہ باپ کے ملکیت ہو جاتا ہے جب کہ نو مہینے تک ماں اسے اپنے شکم میں رکھتی ہے،زچگی کا درد برداشت کرتی ہے،دو سال تک اسے دودھ پلاتی ہے کہ جس سے خود اس کی اپنی ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں،خون کی کمی،رحم  اور مختلف قسم کے سرطان۔۔۔عورت ہی کو ان سب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔ اور آخر میں بچہ باپ کی ملکیت ہو جاتا ہے کہ جس نے اس کے لئے بہت کم زحمت کی ہوتی ہے؟کیا یہ صرف اس لئے ہے کہ ماں مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتی؟ بہت خوب!مرد کی یہ ذمہ داری ہو کہ وہ زندگی کے آخر تک بچوں کا خرچہ دے ۔کیا مرد تربیت کرنے کی توانائی نہیں رکھتا؟پس پھر تربیت کی ذمہ داری صرف عورت ہی کی کیوں ہے؟جب کہ باپ کا ان سب میں بہت ناچیز حصہ ہوتا ہے۔

۵۔کیوں عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مرد کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتی اور اسے مکمل طور پر اس کا مطیع ہونا چاہئے ورنہ اس کی تمام عبادتیں باطل ہو جائیں گی اور وہ ملعون ہو گی لیکن مرد بیوی کی رضائیت کے بغیر بھی جو چاہے کر سکتا ہے؟اس عظیم حق کی وجہ سے بہت سے مرد اپنی بیویوں اس سے سوء استفادہ کرتے ہیں ۔

۶۔ کیوں باپ کی وفات کے بعد بچوں کی سرپرستی کا حق دادا یا اس کے چچا کو حاصل ہو گا؟اسے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ماں سے زیادہ اس کے بچوں پر حق رکھتا ہو؟

۷۔آپ کے عظیم اور بزرگ جد امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے ایک خطبہ میں عورتوں کو ناقص العقل اور ناقص الایمان کہا ہے،کیا عورتیں حقیقتاً ناقص العقل ہیں؟پھر کس طرح آج کی دنیا میں عورتیں بھی اس مقام تک پہنچ جاتی ہیں جہاں مرد پہنچتے ہیں؟کیا ہم نے یہ چاہا تھا کہ ہماری عقل ناقص ہو،ایمان ناقص ہو،ماہواری کی وجہ سے ہماری نماز ناقص ہو؟کیا یہ خدا کی مشیت نہیں تھی؟مشیت خدا کی وجہ کیوں ہماری تحقیر کی جائے؟اور کیوں خدا نے ہمیں اس طرح سے خلق کیا؟کیا رسول اکرم ؐ کی حدیث کی رو سے جہنم میں مردوں کی بنسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہونے کی یہی وجہ نہیں ہے؟

 ۸۔مردوں کی طرح تمام شرعی ذمہ داریوں کے علاوہ ہمیں شوہر کی اطاعت نامی ایک اور اضافی ذمہ داری کیوں سونپ دی گی؟حتی اگر خدا کے تمام فرامین کی اطاعت کی ہو اور تمام احکامات پر عمل کیا ہو لیکن شوہر کی فرمانبرداری نہ کی ہو تو پھر بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا؟میرے ذہن و وجود میں ہزاروں دوسرے سوال بھی ہیں لیکن اگر آپ انہیں کا جواب دے دیں تو میرے لئے یہی کافی ہے  اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ بقیہ سوالوں سے قطع نظر کروں گی۔ میں زیادہ توقعات رکھنے والی انسان نہیں ہوں۔میں جانتی ہوں کہ مجھ میں یہ لیاقت نہیں ہے کہ میں شخصی طور پر آپ سے سوالات کے جوابات لے سکوں۔لہذا میں آپ کے جس نمائندہ کو یہ خط ارسال کر رہی ہوں،میں ان کی زبان سے آپ کے جواب کی منتظر ہوں۔ والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته.

 

بسم الله الرحمن الرحیم

میری محترم بہن

میں نے شروع سے آخر تک آپ کا خط پڑھا۔اگرچہ اس کے ابتدائی حصہ میں آپ نے بہت تند اور سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔لیکن اس کی عبارات اور مؤمنانہ خطاب(جو بہٹ سادہ اور با معنی ہے)اور آپ کے وہ جملے جنہیں آپ نے گستاخانہ جملوں سے تعبیر کیا ہے، اور آپ کا صادقانہ معذرت خواہی کرنا کوئی دوسرا حال ہی بیان کرتا ہے۔

اگرچہ حضرت صاحب الأمر امام زمانہ عجّل‌الله تعالی فرجه الشریف اور خداوند متعال سے ہمارے رابطہ کو بہت عزیزدوستوں اوررشتہ داروں سے تشبیہ نہیں دے سکتے۔لیکن دوستانہ تعلقات بہت گہرے اور پرانے ہو جائیں تو کبھی دوست اپنے دوست سے شکوہ و گلہ بھی کر لیتا ہے اگرچہ خطا اس کی اپنی ہی کیوں نہ ہو اور کبھی اعتراض آمیز لہجہ میں گلہ کرتا ہے لیکن وہ کسی دوسرے سے شکوہ و گلہ نہیں کرتا۔

آپ نے اس غیر مناسب اور آلودہ ماحول میں گناہوں سے پرہیز کیا اور نماز و حجاب کی پابندی کی ۔یقیناً آپ نے جہاد کیا ہے اور آپ کا ثواب میدان جنگ میں کفار سے جہاد کرنے والوں سے کم نہیں ہے۔پھر کن وجوہات کی بنا پر آپ کا راستہ بدل گیا؟!

آپ خود پہلے حصہ میں لکھے گئے اپنے جملے کو پڑھئے اور اس سے نور حاصل کیجیئے۔میں آپ کی اس تحریر کو معتبر اور قیمتی سمجھتا ہوں لیکن شکوہ آمیز جملوں کو معتبر نہیں سمجھتا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس زبان اور لہجہ سے آپ نے اپنی کوتاہی کا اعلان کیا ہے۔

آپ کی تحریر میں توبہ کا انداز کس قدر خوبصورت اور شیرین ہے:’’مجھ سے گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا ۔۔۔بہت بڑا گناہ۔میں آپ سے معافی طلب کرتی ہوں اور اپنے گناہگار چہرے کو خاک پر رکھتی ہوں۔۔۔چونکہ آپ کے دوستوں نے مجھ سے یہ کہا کہ آپ ہرہفتہ اپنے شیعوں کا نامۂ اعمال پڑھتے ہیں۔۔۔‘‘

یہ بہت ہی جذّاب،پرکشش،دل نشین اور امید بخش کلمات ہیں جو اہل معرفت کے علاوہ کسی اور کی زبان پر جاری نہیں ہو سکتے۔

دوسرا حصہ اور سوالات کے جوابات:

یہ مسئلہ چھوٹے بچہ پر باپ کی ولایت کے شبہات میں سے ہے؛بچہ چاہے بیٹا ہو یا بیٹی۔یہ اہم مسائل میں سے ہے اور اس کا تعلق صرف عقد نکاح کے مسائل سے نہیں ہے بلکہ بچے کے اموال اور اس کی حفاظت،مصلحت اور تربیت سے بھی وابستہ ہے۔

اختیار مطلق نہیں ہے بلکہ اس کی معتبر شرائط ہیں کہ جن کا محقق اور واقع ہونا بہت ہی نادر ہے۔لیکن قانون میں ان موارد کو پہلے ہی سے مدنظر رکھنا لازم ہے اور اگر یہ نہ ہوں تو قانون کا نقص لازم آتا ہے  اور جس طرح آپ نے تصور کیا ہے یہ سب ولی کے اختیارات سے خارج ہے۔

یہاں آپ نے اس شخص کی طرح بات کی ہے جو عمداً اور خود غرضی کے تحت فقیہ پر اعتراض کرتا ہے   اورآپ نے  ایسی صورت بیان کی ہے کہ جسے صرف فرض کیا جا سکتا ہے اور جس کا صرف تصور ممکن ہے لیکن وہ خارج میں کبھی واقع نہیں ہوا۔کیا آپ ایسا کوئی مورد دکھا سکتی ہیں کہ جس میں باپ نے اس طرح سے اپنے بچوں(چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی) کے ساتھ سلوک کیا ہو۔اپنے رشتہ داروں، جاننے والوں یا کسی اور سے بھی پوچھیں تو کوئی بھی آپ کو ایسا مورد نہیں دکھا سکتا۔البتہ باپ کی اس ولایت کا یہ تقاضا ہے کہ جہاں بھی اولاد کی مصلحت ہو باپ اپنی اس ولایت پر عمل کرے اور مطلق ہونے کی وجہ سے اس قانون کی حدود اس قدر وسیع ہیں کہ اگر اولاد کی مصلحت کا تقاضا ہو تو باپ کسی بھی عقد میں اس پر عمل کر سکتا ہے ۔یہ ولایت بچہ کی مصلحت کی محافظ ہے۔

آپ نے ایک ایسے مورد کی مثال پیش کی ہے کہ جس کی خارج میں کوئی مثال نہیں ہے اور جس میں مفسدہ و فساد پایا جاتا ہے۔مثلاً معمولی قیمت پر مال کرایہ پر دینا، جب کہ  اس کا کوئی وجود خارجی نہیں ہے  اور گویا اولاد پر باپ کی ولایت کے حکم پر حملہ کیا گیا ہے ، حلانکہ اگر بعض شرائط میں اس کی ضرورت پیش آئے تو اس میں مصلحت کے تمام پہلوؤں کی رعایت کی جاتی ہے۔

بچہ کے عقد نکاح کے موارد کا تعلق محرمیت سے مخصوص مسائل سے ہے  کہ جس میں خاندان اور چھوٹے بڑے  کی مصلحت ہے اور وہ بھی عقد موقّت کی صورت میں ہے کہ جس کے بعد مدت بھی بخش دی جاتی ہے۔

آپ نے بچہ پر باپ کی ولایت کے موضوع کو حتی عقد نکاح میں بھی اس طرح سے بیان کیا ہے اور اس طرح سے اس عمل کی تشریح بیان کی ہے کہ جیسے یہ کوئی ایسا عمل ہے جو شہروں اور دیہاتوں کے تمام مسلمانوں میں رائج ہے اورایسی فاسد شرائط کی بناء پر  کمسن بچیوں کا مردوں سے نکاح دائم کر دیا جاتا ہے۔یہ ایسا مورد ہے جو صدیوں  میں بھی کبھی رونما نہیں ہوتا اور ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جسے اس طرح کے موارد کا علم ہو۔

کیا ایسا کوئی بچہ ہے جو آپ کی لکھی گئی صورت حال سے دچار ہو؟ایک بچی پر آنے والے ان تمام برے اثرات(جنہیں آپ نے لکھا ہے) کو ایک بعید فرض سے ہی تصور کیا جا سکتا ہے!اس کی بناءپر آپ یہ کہتی ہیں :کیا مرد اس قدر پاک و پاکیزہ اور بزرگوار ہیں کہ بچی ان کی سپرد کر دی جائے۔۔۔اور اگر وہ حاملہ ہو گئی۔۔۔اور اگر یہ ہو گیا۔۔۔۔

آپ نے یہ سب اس طرح سے لکھا جیسے ہمیشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے بڑی عمر کے مرد کمسن بچیوں پر تصرف کرتے ہیں لیکن آپ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور آپ یہ نہیں دیکھ رہیں کہ آپ کے اپنے خاندان،آپ کے دوستوں کے خاندان اور یہاں یا وہاں ،کہیں بھی ایسے فرض کا سابقہ نہیں ہے۔

آپ ایک سالم و کامل قانون پر اعتراض کر رہی ہیں یا ولادت سے موت تک عورتوں پر مردوں کے سو فیصد تسلط کے بارے میں بات کر رہی ہیں اور سو فیصد حقیقت کا انکار کر رہی ہیں؟

یہ قرآن مجید اور یہ آیات عورت اور مرد کے رابطہ سے متعلق ہیں جن میں ان کے حقوق متقابل کو بیان کیا گیا ہے: «هُنَّ لِبَاسٌ لَكُم وَ أنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ»[۱]  اور سورهٔ  احزاب کی ۳۵ ویں آیت[۲] میں حقیقی و واقعی مقام و ارزش کے لحاظ سے عورت اور مرد کو ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔

اسلام نے عورت کو مرد اور مرد کو عورت کا شریک حیات قرار دیا ہے۔اسلام سے پہلے عورت کوکسی جگہ اور کسی بھی قوم و ملت میں کوئی مناسب انسانی مقام حاصل نہیں تھا۔

اسلام ایسا دین ہے جس نے عورت کو مقام و عزت دی لیکن یہ اسلام پر ظلم ہے کہ خواتین اسلام کے عظیم حقوق نسواں سے لاعلم ہوں   اور انہوں نے قرآن کی ان آیات کو بھی فراموش کر دیا جن میں عورت کو مرد کے ساتھ انسانی قلعہ کا ستون قرار دیا گیا ہے: «مَنْ عَمِلَ صالِحاً مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى‏ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیینَّهُ حَیاةً طَیبَةً وَ لَنَجْزِینَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ ما كانُوا یعْمَلُون»[۳] 

اور اب وہ نادانستہ طور پر فقہ اسلامی پر اعتراض کریں اور العیاذ باللہ یہ گمان کریں کہ جس طرح بعض معاشروں اور ممالک میں رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کو دو   طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے (حالانکہ ان کی شان مساوی و برابر ہے)اسی طرح اسلام میں بھی عورتوں اور مردوں کے سلسلہ میں درجہ بندی ہے۔حالانکہ اسلام میں اس چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔

- طلاق میں مرد کو اختیار ہونے میں بھی کچھ مصلحتیں کارفرما ہیں کہ جس میں پورے خاندان کی مصلحت وابستہ ہے اور اگر اس میں عورت کے لئے زیادہ خیر نہ ہو تو کم بھی نہیں ہے۔

بعض حالات و واقعات میں عورت کے احساسات، مہر و محبت ،غضب و نفرت زیادہ بھڑک جاتی ہے اور اس کے برعکس مرد ایک خاص قوت کا حامل ہوتا ہے کہ اس پر دیر سے ہیجانی کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اپنے احساسات پر ملسط ہوتا ہے کہ دونوں میں ہر ایک کے لئے کمال ہے۔

عورت کو اس طرح اور مرد کو اس طرح سے ہونا چاہئے ؛کہ فرمایا: «إِنَّ الْمَرْأَةَ رَیحَانَةٌ وَ لَیسَتْ بِقَهْرَمَانَة»[۴]مردوں میں پہلوانی و طاقت زیادہ ہوتی ہے لیکن عورت  میں پھول کی طرح لطافت اور نزاکت پائی جاتی ہے۔

طلاق سے باز رکھنے والی قوت مرد میں زیادہ عمل کرتی ہے ۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ طلاق اور اس جیسے دوسرے مسائل میں بنیاد و اساس ایک ہی ہے یعنی اس کی بنیاد عورت اور مرد کے ازدواج پر رکھی جاتی ہے اور اس کی بنیاد عورت کے مرد سے مختص ہونے پر رکھی جاتی ہے نہ کہ مرد کے عورت سے مختص ہونے کی بنیاد پر ،اور یہ اختصاص ان کی جسمانی خصوصیات کی بنیاد پر ہے۔

جنسی تعلقات اور تولید نسل میں عورت کو ایک سے زیادہ مردوں کو ضرورت نہیں ہوتی اور اس کی تولید محدود ہے لیکن اس کے برعکس تولید کے اعتبار سے مرد ایک وقت میں زیادہ تولید پر قادر ہوتا ہے۔(ظاہراً تولید نسل ہی ازدواج کی طبیعی و فطری غرض ہے)ازدواج اور نکاح میں عورت ایک ہی مرد سے قابل اختصاص ہوتی ہے اور وہ قرارداد کے مطابق  ایک مرد سے خاص ہو جاتی ہے لیکن مرد ایک عورت سے اختصاص نہیں رکھتا کیونکہ اس کا خاص ہونا نظام تولید کے خلاف ہے ۔اس بناء پر ازدواج میں اس اختصاص کو رفع کرنا عورت کے برعکس مرد کے اختیار میں ہے۔

کلی طور پر خاندان اور ازدواج و شادی کا یہ سب نظام الٰہی و وحیانی اور شرعی ہے کہ جس میں تما م پہلوؤں اور مصلحتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور جس طرح تمام مؤمن مرد اور عورتیں اس نظام کو تسلیم کرتی ہیں  اور اس  الٰہی نظام کی وجہ سے ان کے  دل میں پریشانی نہیں ہوتی۔

یہ نظام کامل ہے اور زوجین میں تعلقات مکمل طور پر مقدس و پاکیزہ ہیں اور یہ دونوں ایک وجود کی طرح ہوتے ہیں،دونوں ہمیشہ اکٹھے،ایک ساتھ ہوتے ہیں ۔المختصر یہ کہ اسلام میں ازدواج اور شادی کا نظام بہترین نظام ہے جو کہ دنیا و آخرت میں زوجین کے لئے خیر کا ضامن ہے۔

ماں کے عنوان سے عورت کا باپ سے زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔«رسول اکرم صلّی‌الله علیه و آله و سلّم سے پوچھا گیا کہ کسے زیادہ اہمیت حاصل ہے یا کس سے زیادہ حُسن سلوک سے پیش آیاجائے؟ آپ نے فرمایا:ماں۔ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد؟فرمایا:ماں،یہاں تک کہ تین یا چار مرتبہ ماں کہنے کے بعد آپ نے فرمایا:باپ۔»[۵]

فطری ،طبیعی اور تکوینی طور پر عورت حمل، بچہ کی شیر خوری کی مدت اور زوجہ ہونے کی وجہ ائمہ علیہم السلام کے فرامین میں عورت کا بلند مقام اور اس کی اہمیت و احترام  کوواضح و آشکار طور سے بیان کیا گیا ہے، جو مسلمان عورت کے لئے باعث افتخار ہے۔

-کہتے ہیں:کیوں عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مرد کی اجازت کے بغیر کوئی کام انجام دے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ کہاں اور کس نے کہا ہے کہ عورت کو شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں ہے؟!

عورت بھی مرد کی طرح خودمختار ہے اور وہ بھی دوسروں کی طرح اپنے مال میں جیسے تصرف کرنا چاہے کر سکتی ہے۔ایسا لگتا  ہے جیسے آپ اسلامی سماج میں زندگی بسر نہیں کر رہیں اور آپ نے زوجہ اور شوہر میں عشق و محبت سے بھرپور رشتہ نہیں دیکھا  یا یہ کہ آپ کے خاندان میں اسلامی اخلاق کا ظہور نہیں ہے؟

ہم نے مکرّر بیان کیا ہے کہ اسلامی تربیت کے نتیجہ میں عورت اور مرد ایک وجود اور جسم میں ایک روح کی مانند ہیں۔ان کے درمیان یہ جدال اور یہ توتو میں میں نہیں ہے۔آج دنیا کی منفی تبلیغات نے زوجہ اور شوہر میں جدائی ڈالی ہے اور انہیں ایک دوسرے کے مدمقابل لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے  کوکھا جانے والوں نظروں  سے دیکھتے ہیں۔

- افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بچے پر دادا یا چچا کی ولایت و سرپرستی کے متعلق آپ کے اعتراضات اسلامی احکام سے آپ کی کم علمی کا نتیجہ ہیں۔بچہ کے چچا کو بچہ پر کوئی ولایت حاصل نہیں ہے۔دادا کو ولایت حاصل ہے یعنی دادا بچہ کے امور کی دیکھ بھال کرے گا تا کہ بچہ کا فائدہ اور مصلحت ضائع نہ ہو جائے اور بچہ کی تربیت کسی بڑے بزرگ کے زیر سایہ انجام پائے اور باپ کے فوت ہو جانے کی صورت میں ماں کو ہی حق حضانت حاصل ہے۔

- یہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے منقول خطبہ میں بیان ہوا ہے اور یہ خطبہ عائشہ کی جانب سے ان نامناسب مصائب کی طرف اشارہ ہے کہ جو امت اسلامی پر فتنہ کے در کھلنے اور جنگ جمل و صفین اور اس کے بعد بنی امیہ ان کے جابر ظالم حکمرانوں کے تسلط کا باعث بنا۔یہ امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کے  خطبہ کا ایک حصہ ہے اور چونکہ اس خطبہ کو مکمل طور پر نقل نہیں کیا جاتا لہذا صرف اس ایک جملہ کو دنیا بھر کی تمام عورتوں پر جاری کر دیاجاتا ہے جب کہ قرآن مجید نے عورتوں اور مردوں کی ایک ساتھ توصیف و تمجید کی ہے۔اب یہ واضح ہے کہ یہ  حکم کلی نہیں ہے اور یہ حکم حضرت فاطمۂ زہراء  اور حضرت مریم علیہما السلام اور ہزاروں لاکھوں دوسری خواتین پر لاگو نہیں ہوتا کہ جن کی فضیلت مردوں کی اکثریت پر ثابت ہے۔

-عورت کا مرد کی اطاعت کرنا اور مرد کے عورت پر خاص حقوق نکاح میں دونوں کی رضامندی سے ثابت ہوتے ہیں،اطاعت خاص ہے اور اگر اطاعت نہ ہو تو ازدواج و نکاح کی بنیاد و اساس کے منافی ہے۔مرد کے کچھ حقوق ہیں اور اس کی مناسبت سے عورت کے بھی مرد پر کچھ حقوق ہیں۔

یہ آپ کے یہ سوالات اور جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ کائنات میں ایسے ہزاروں سوالات ہیں ۔لیکن آپ اپنی سوچ اور فکر کی اصلاح کریں ۔آپ کے ذہن میں جو کچھ ہے وہ اعتراض نہیں بلکہ بدفکری ہے جو کائنات کی صحیح تفسیر اور اس کے مسائل سے لاعلمی کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے۔

آپ کے خط میں کچھ ایسے موارد تھے جو نورفطرت کی بقاء اور خدا و حقیقت کی طرف مائل ہونے پر دلالت کرتے تھے۔سولہ سال کی عمر میں آپ کو حاصل ہونے والی توفیق اتمام حجت تھی،اسی کو خود میں زندہ کرتے ہوئے خدا کی راہ پر گامزن رہیں ،اس کی بندگی کریں اور نیک اعمال بجا لائیں۔

ان شاء اللہ خدا کی توفیق و فضل سے آپ ایسے سوالات سے نجات پائیں کہ جن کا جاننا یا نہ جاننا راہ خدا،دینی واجبات،عبادات،محرّمات سے پرہیز اور خود سازی و تذکیہ نفس کے لئے کوئی  اثر نہیں رکھتا۔

ہمیشہ کامیاب و کامران رہیں۔

 

آیت الله العظمی صافی گلپایگانی مدظله العالی  کی کتاب "زن در پرتو اسلام" سے اقتباس

 حوالہ جات:


[۱]. «وہ تمہارے لئے پردہ پوش ہیں اور تم ان کے لئے(یعنی دونوں ایک دوسرے کے لئے زینت اور حفاظت کا باعث ہیں)». سوره بقره، آیه ۱۸۷.

[۲]. «إِنَّ الْمُسْلِمینَ وَ الْمُسْلِماتِ وَ الْمُؤْمِنینَ وَ الْمُؤْمِناتِ وَ الْقانِتینَ وَ الْقانِتاتِ وَ الصَّادِقینَ وَ الصَّادِقاتِ وَ الصَّابِرینَ وَ الصَّابِراتِ وَ الْخاشِعینَ وَ الْخاشِعاتِ وَ الْمُتَصَدِّقینَ وَ الْمُتَصَدِّقاتِ وَ الصَّائِمینَ وَ الصَّائِماتِ وَ الْحافِظینَ فُرُوجَهُمْ وَ الْحافِظاتِ وَ الذَّاكِرینَ اللهَ كَثیراً وَ الذَّاكِراتِ أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظیماً؛ بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں  روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفت کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی عفت کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور کثرت سے خدا کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے.»

[۳]. «جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو،ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزاء دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے». سوره نحل، آیت ۹۷.

[۴]. «بیشک عورت ریحانہ ہے اور خادم و قہرمان نہیں ہے ». نهج البلاغة (صبحی صالح)، نامه ۳۱.

[۵]. مستدرک الوسائل؛ ج ۱۵،‌ ص۱۸۱، ح۱۷۹۳۶.

Sunday / 8 May / 2016