جمعه: 1403/01/31
Printer-friendly versionSend by email
امام حسين عليہ السلام آيۃ تطہير كي روشني ميں

" اِنَّما یُریدُ اللّهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ‎الرِّجْسَ أَهْلَ اْلبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهیراً "(سورہ احزاب ، آیت/۳۳)
ترجمہ : بس اللہ كا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت! كہ تم سے ہر برائی كو دور ركھے اور اس طرح پاك و پاكیزہ ركھے جو پاك و پاكیزہ ركھنے كا حق ہے۔ 
شیعہ و سنی دونوں مذہب میں مشہور و متواتر روایات كی بنیاد پر آیت تطہیر عالم خلقت كی پانچ ممتاز شخصیتوں كے اجتماع پر نازل ہوئی ، جو اجتماع كبھی چادر كے نیچے برپا ہوا ، كبھی پیغمبر اكرم (ص) كے خانہ اقدس میں تو كبھی فاطمہ زہرا(س) كے گھر میں برپا ہوا ۔ یہ آیت اور اس كی تفسیر میں وارد ہونے والی احادیث حضرت سید الشہداء (ع) كی عصمت اور جلالت شان پر دلالت كرتی ہیں ۔ 
اس آیت اور حدیث كساء كے متعلق مفصل كتابیں لكھی گئی ہیں ، بعض راویوں ، جیسے صبیح(اسد الغابہ ، ج/۱۳، ص/۱۱) نے اس حدیث كا كچھ حصہ نقل كیا ہے ، منجملہ مسلم ، بغوی ، واحدی ، اوزاعی ، طبری ، ترمذی ، ابن اثیر ، ابن عبدالبر ، احمد، حموینی ، زینی دحلان ، بیہقی وغیرہ نے عائشہ ، ام سلمہ ، انس ، واثلہ ، صبیح ، عمربن ابی سلمہ ، معقل بن یسار ، ابی الحمراء، عطیہ اور ابی سعید و ام سلیم(صحیح مسلم ، ج/۷، ص/ ۱۳۰ وغیرہ) سے اس واقعہ كے سلسلے میں متعدد روایات نقل كی ہیں ۔ 
عائشہ ناقل ہیں : پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ ایك صبح آئے در حالیكہ وہ برد یمنی (وہ چادر جو كالے بالوں سے بنی ہوئی تھی ) اوڑھے ہوئے تھے ، پھر حسن (علیہ السلام ) آئے پیغمبر(ص) نے انھیں چادر كے اندر بلا لیا ، اس كے بعد حسین (علیہ السلام ) آئے وہ بھی چادر كے اندر چلے گئے ، پھر فاطمہ (علیھا السلام) آئیں پیغمبر(ص) انھیں بھی چادر میں لے گئے اور آخر میں علی علیہ السلام اور وہ بھی چادر كے اندر تشریف لے گئے پھر پیغمبر (ص) نے فرمایا : " اِنَّما یُریدُ اللّهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ‎الرِّجْسَ أَهْلَ اْلبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهیراً " (صحیح مسلم ،ج/۷، ص/۱۳۰وغیرہ)

" اوزاعی" نے شداد بن عبداللہ سے روایت نقل كی ہے كہ جس وقت امام حسین علیہ السلام كا سر لایا گیا ، ایك شامی نے آنحضرت اور ان كے والد كی شان میں گستاخی كی تو واثلہ بن اسقع كھڑے ہوئے اور كہا : خدا كی قسم ! میں علی ، حسن و حسین اور فاطمہ علیہم السلام كا اس وقت سے محب ہوں جب سے ان كے حق میں پیغمبر اكرم (ص) كا یہ  قول سنا ہے ، واقعہ یہ ہے كہ ایك روز میں ام سلمہ كے گھر میں پیغمبر(ص) كی خدمت میں شرفیاب ہوا اتنے میں حسن علیہ السلام آئے ، پیغمبر(ص) نے انھیں اپنے داہنے زانو پر بٹھایا اور ان كا بوسہ لیا ، پھر حسین(علیہ السلام ) آئے انھیں بائیں زانو پر بٹھایا اور بوسہ لیا ، پھر فاطمہ(س) آئیں انھیں اپنے سامنے بٹھایا اور علی (ع) كو بلوایا اور فرمایا : " اِنَّما یُریدُ اللّهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ‎الرِّجْسَ أَهْلَ اْلبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهیراً "(اسد الغابہ، ج/۲، ص/۲۰)
" دولابی" اپنی كتاب " الذریۃ الطاھرۃ " میں ام سلمہ سے روایت كرتے ہیں كہ پیغمبر ۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ نے جناب فاطمہ(س) سے فرمایا : اپنے شوہر اور بیٹوں كو میرے پاس لے كر آؤ ، فاطمہ انھیں لے كر رسولخدا(ص) كی خدمت میں حاضر ہوئیں ، پیغمبر(ص) نے فدكی چادر ان كے اوپر ڈال كر فرمایا : " اَللّهُمَّ اِنَّ هؤُلاءِ آلُ مُحَمَّد فاجْعَلْ صَلَواتِكَ وَ بَركاتِكَ عَلی آلِ مُحَمَّد اِنَّكَ حَمیدٌ مَجیدٌ " 
خدایا! یہ آل محمد ہیں ، اپنی رحمت و بركت ان پر نازل فرما ، بیشك تو حمید و مجید ہے ! 
اور ام سلمہ كہتی ہیں : میں نے چادر اٹھائی تاكہ میں بھی داخل ہو جاؤں لیكن پیغمبر نے روك كر فرمایا : " اِنَّكِ عَلی خَیْر " تم خیر پر ہو ۔ (ذخائر العقبیٰ ، ص/۲۴)
اسی طرح كی ایك روایت حموینی نے واثلہ سے كی ہے ( فرائد السمطین ، ج/۱، ص/۲۴)
واحدی اسباب النزول میں ، احمد نے مناقب میں ، طبرانی نے ابی سعید خدری سے نقل كیا ہے كہ آیت "انما یرید اللہ " پنجتن پاك كی شان میں نازل ہوئی ۔ یعنی رسول خدا(ص) علی، فاطمہ ، حسن و حسین علیہم السلام كی شان میں نازل ہوئی ۔ (ذخائر العقبیٰ ، ص/۲۴ )
احمد نے ام سلمہ سے روایت كی ہے كہ پیغمبر ۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ان كے گھر میں تھے ۔ جناب فاطمہ (س) ان كے گھر میں ایك برتن میں خزیرہ ( ایك قسم كا كھانا ) لے كر حاضر ہوئیں ، پیغمبر(ص) ایك چادر پر تشریف فرما تھے اور فرمایا : اپنے شوہر اور بچوں كو بھی بلا لاؤ ، پھر علی ، حسن و حسین (علیہم السلام) آئے ، بیٹھے اور پھر كھانا كھایا ، ام سلمہ كہتی ہیں ، میں حجرہ میں نماز پڑھ رہی تھی ، اسی وقت خدا نے یہ آیت نازل فرمائی : اِنَّما یُریدُ اللّه لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهیراً ، 
اس كے بعد پیغمبر نے چادر كا كنارہ پكڑا اور انھیں سب كو اڑھا كر ہاتھ باہر نكال كر آسمان كی طرف اشارہ كر كے فرمایا : اَللّهُمَّ هؤلاءِ أَهْلِ بَیْتی، وَ حامَّتی (اَی خاصَّتی) فَاذْهَبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطهیراً
خدایا! یہ میرے اہلبیت، میرے خاص لوگ ہیں ، ہر طرح كی برائی كو ان سے دور ركھ اور انھیں اس طرح پاك ركھ جیسے پاك ركھنے كا حق ہے ۔ 
ام سلمہ ناقل ہیں : میں نے اپنے كمرے سے سر نكال كر كہا : كیا میں بھی آپ كے ساتھ ہوں یا رسول اللہ ! ؟ 
پیغمبر(ص) نے فرمایا : " اِنَّكِ اِلی خَیْرِ اِنَّكِ اِلی خَیْر " تم خیر پر ہو ، تم خیر پر ہو ۔ (السیرۃ النبویہ، ج/۳، ص/۳۶۶ )
اسی طرح كی ایك حدیث (اسباب النزول، ص/ ۲۶۷) واحدی نے ام سلیم سے بھی روایت كی ہے ۔ 
یہ احادیث بہت زیادہ ہیں اور حضرت سید الشہداء۔ علیہ السلام۔ كی عصمت پر دلالت كرتی ہیں اور وہ جو بھی عمل كریں یا كسی بھی نہضت كی شروعات كریں وہ صحیح اور حقیقت ہے ۔ سیوطی نے " كتاب اكلیل" میں اس آیت سے استدلال كیا ہے اور كہا ہے كہ سب اہلبیت(ع) كے اجماع كو حجت سمجھتے ہیں ، چونكہ خطا رجس ہے اور رجس و برائی ان سے دور ركھی گئی ہے ۔ (اكلیل ، ص/ ۱۷۸)
اقتباس : پرتوی از عظمت امام حسین(ع) تالیف حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی 

Sunday / 11 January / 2015