جمعه: 1403/01/10
Printer-friendly versionSend by email
امام رضا عليہ السلام كے اخلاقي فضائل

آپ كا اسم گرامی علی كنیت ابو الحسن اور مشہور لقب رضا ہے۔ آپ سلسلہ امامت كی آٹھویں كڑی اور دسویں معصوم ہیں ۔ آپ كی ولادت مشہور قول كی بنیاد پر ۱۱ ذیقعدہ سن ۱۴۸ ہجری كو ہے جبكہ بعض لوگوں نے ماہ ذی الحجہ یا ربیع الاول بھی لكھا ہے اور بعض مورخین نے آپ كا ولادت سن ۱۵۳ ہجری لكھا ہے ۔ 
چونكہ مولائے كائنات (ع) كا لقب بھی ابوالحسن تھا اس لئے آپ كو ابوالحسن ثانی كہتے ہیں اور آپ كا لقب رضا اس لئے ہے كہ دوست اور دشمن سبھی آپ سے راضی تھے ۔
آپ كے اخلاق و كردار كو ابراہیم بن عباس نے اس طرح نقل كیا ہے : میں نے كبھی نہیں دیكھا كہ حضرت نے كسی پر ادنیٰ سا ظلم كیا ہو یا كسی كہ بات كاٹ كر اپنی بات كہہ دی ہو ،آپ كسی فقیر كو واپس نہیں پلٹاتے تھے كسی مجلس میں پیر پھیلا كر نہیں بیٹھتے تھے ، دوسروں كے سامنے ٹیك لگا كر نہیں بیٹھتے تھے كہ اس كی كی بے احترامی نہ ہونے پائے ، كسی غلام كو برا بھلا نہیں كہتے تھے ،جس وقت دسترخوان لگتا تمام غلاموں كو اپنے ہمراہ بٹھاتے اور ان كے ساتھ كھانا نوش كرتے ،زیادہ تر بیدار رہ كر راتوں كو عبادت كیا كرتے تھے ، مستحب روزے ركھتے اور ہر مہینہ كی پہلی جمعرات ،آخری جمعرات اور پہلے بدھ كے دن كا روزہ كبھی ترك نہیں كرتے تھے ، اكثر رات كی تاریكی میں لوگوں كی مدد كرنے كے لئے نكلتے تھے ۔ 
ابراہیم كہتے ہیں كہ اگر كوئی یہ گمان كرے كہ حضرت كے جیسا كوئی اور بھی ہو سكتا ہے تو اس كی تصدیق 
نہ كرنا ۔ 
حضرت كی انكساری 
ایك بار آپ حمام گئے ایك شخص جو آپ كو نہیں پہچانتا تھا اس نے كہا كہ میری پیٹھ مالش كر دو ،حضرت نے اس كے پیٹھ كی مالش شروع كر دی ۔ 
ابھی تھوڑی ہی دیرگزری تھی كہ لوگ آ گئے اور اس شخص كو بتایا كہ یہ امام علی بن موسیٰ الرضا ہیں ،اس نے عذرخواہی شروع كر دی لیكن حضرت نے اپنا ہاتھ نہ روكا بلكہ اپنے لطیف كلام كے ذریعہ اس كی دلجوئی فرمائی تاكہ اس كو شرمندگی كا احساس نہ ہو ۔ 
آداب ضیافت 
ایك رات حضرت كے گھر مہمان بیٹھے تھے اتنے میں چراغ كی روشنی كم ہوگئی ۔ ایك مہمان نے چاہا كہ بڑھ كر چراغ ٹھیك كر دے لیكن حضرت نے خود چراغ ہاتھ میں لیا اور اسے ٹھیك كرنے لگے اور فرمایا : ہم وہ ہیں جو اپنے مہمانوں سے كوئی كام نہیں لیتے ۔ یعنی مہمان كا احترام فرض ہے ۔
عبادت ،تلاوت قرآن اور حضرت كے طولانی سجدے
دعبل كے بھائی ناقل ہیں كہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے میرے بھائی دعبل كو ایك پیراہن اور عقیق كی انگوٹھی عنایت كی اور فرمایا : اے دعبل جاؤ شہر قم تمہیں وہاں كچھ فائدہ ہوگا اور فرمایا : اس پیراہن كی حفاظت كرنا چونكہ میں نے ایك ہزار راتوں كو اس لباس میں ہزار ہزار ركعت نمازیں ادا كی ہیں اور ایك قرآن شروع سے آخر تك اسی لباس میں تلاوت كیا ہے ۔ 
صولی نے اپنی دادی سے سوال كیا كہ امام رضا علیہ السلام كے متعلق كچھ بیان كریں : انھوں نے كہا : امام رضا علیہ السلام ہمیشہ اول وقت نماز ادا كرتے تھے ،جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تو سجدے میں سر ركھتے اور سورج نكلنے تك سر سجدے میں ہی رہتا تھا اور تمام مدت آپ ذكر خدا میں مشغول رہتے تھے ۔ 
معیار فضیلت تقویٰ ہے 
بلخ كا رہنے والا ایك شخص كہتا ہے میں خراسان كے سفر میں حضرت كے ہمراہ تھا ،ایك دن جب دسترخوان چنا گیا تو حضرت نے اپنے تمام غلاموں كو اپنے ساتھ كھانے پر بلایا ، میں نے كہا : میں آپ پر قربان ہوں ، بہتر ہے انھیں دوسرے دسترخوان پر بٹھا دیں ، حضرت نے فرمایا : خاموش رہو ! سب كا خدا ایك ہے ، ہم سب كے ماں باپ ایك ہیں ،ہر انسان كی جزا اس كے عمل كے مطابق ہے ،جس كا عمل بہتر ہے وہ خداوند سے قریب ہے چاہے وہ سیاہ فام غلام ہی كیوں نہ ہو ۔ 
اسراف و بربادی 
حضرت كے غلام یاسر نے نقل كرتے ہیں : ایك دن حضرت كے غلاموں نے پھل كھایا اور آدھا پھل بغیر كھائے پھینك دیا ،حضرت نے ان سے فرمایا: سبحان اللہ! كیا تمھیں ان پھلوں كی ضرورت نہیں ہے ؟ یاد ركھو روئے زمین پر ایسے لوگ بھی ہیں جو ان پھلوں كے بھی محتاج ہیں اگر نہیں كھانا ہے تو ضرورتمند لوگوں تك پہنچا دو ۔

Sunday / 22 July / 2018