چهارشنبه: 1403/02/5
Printer-friendly versionSend by email
شہادت امام موسيٰ كاظم عليہ السلام

آپ كو حلم و بردباری ، مجرمین كے جرم كی معافی اور ظالمین كے ظلم پر صبر و عفو كی بنیاد پر كاظم كہا جاتا ہے ۔ كاظم كا مطلب ہے غصہ كو پی جانے والا ۔ 
دعا كرتے وقت آپ اس طرح گریہ كرتے تھے كہ محاسن تر ہو جاتی تھیں ، اسی لئے بہت سے لوگ آپ سے متوسل ہوتے اور اپنی مرادیں پاتے تھے ، امام علیہ السلام سب سے زیادہ اپنے رشتہ داروں كا خیال ركھتے تھے ۔ 
مدینہ كے فقراء كی مدد كرتے تھے اور جب رات آتی تو اپنے دوش پر ایك ٹوكری لے كر نكلتے جس میں سونا ، چاندی ، آٹا اور خرما ركھا ہوتا تھا اور پورے شہر كے فقیروں كے درمیان تقسیم كرتے تھے ۔ ( منتھی الآمال ، ص/ ۸۸۹ )
امام موسیٰ كاظم علیہ السلام جس وقت ہارون كے زندان میں تھے تو ہارون الرشید ملعون نے ایك خوبصورت كنیز كو امام كے پاس بھیجا تاكہ امام اس كی طرف رغبت كریں اور ہاروں كو بہانہ مل جائے تاكہ وہ امام كو (معاذ اللہ ) بدنام كر سكے ۔ پھر ہارون نے ایك خادم بھیجا تاكہ وہ ان كو دیكھے اور ہارون كو حالات كی خبر دے ۔ خادم جب آیا تو دیكھا كہ كنیز سجدہ میں پڑی ہوئی خداوند عالم كی بارگاہ میں توبہ و استغفار كر رہی ہے ۔ امام كی مناجات و عبادت نے اسے بھی منقلب كر دیا ہے ۔ ( منتھی الآمال ، ص/ ۸۹۲ )

كہا جاتا ہے كہ ایك شخص ہمیشہ امام كو اذیت كیا كرتا تھا ، امام كے اصحاب كو غصہ آیا اور امام سے درخواست كی كہ اگر امام اجازت دیں تو اس فاسق و فاجر كو قتل كر دیں ۔ امام بہت ہی ناراض ہوئے اور فرمایا : مجھے بتاؤ وہ آدمی اس وقت كہاں ہے ؟ جواب ملا كہ وہ مدینہ كے اطراف میں اپنے كھیت میں كام كر رہا ہے ۔ 
امام اس كے پاس گئے اور دیكھا كہ وہ كھیتی میں مشغول ہے ، اس كے پاس بیٹھے اور خندہ پیشانی كے ساتھ اس سے دریافت كیا كہ اس كھیتی میں تم نے كتنا سرمایہ لگایا ہے ؟ اس نے جواب دیا : سو اشرفی ، امام نے پوچھا : اس سے تم كو كتنا فائدہ ہونے كی امید ہے ؟ جواب دیا : دو سو اشرفی ۔ 
حضرت نے اشرفیوں سے بھری ایك تھیلی نكالی جس میں تین سو اشرفیاں تھیں اور اسے دے كر فرمایا : یہ تین سو اشرفیاں ركھو ، یہ كھیت بھی تمہارا ہی ہے اور دعا ہے كہ خداوند تمہیں اس كھیت میں بركت بھی عطا كرے ۔ وہ آدمی كھڑا ہو گیا اور امام كی پیشانی چوم كر كہنے لگا : مولا ہماری خطاؤں كو درگزر كریں اور ہمیں معاف كر دیں ۔ ( منتھی الآمال ، ص/ ۸۹۲) 
صاحب عمدۃ الطالب نے لكھا ہے كہ ہارون نے سندی بن شاہك كو امام كے قتل كا حكم دیا اور خود شام كی طرف روانہ ہو گیا ۔ كہا جاتا ہے كہ امام كو زہر دیا گیا اور ایك قول یہ بھی ہے كہ امام كو ایك بستر میں لپیٹ كر اس طرح نچوڑا گیا كہ آنحضرت شہید ہوگئے ۔ اس كے بعد آپ كے جسم اطہر كو باہر ركھا گیا تاكہ جو بھی وہاں سے گزرے وہ دیكھے اور یہ گواہی دے كہ حضرت كے جسم پر كوئی زخم نہیں ہے اور وہ اپنی موت اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ۔ اس كے بعد حضرت كو قریش سے مخصوص قبرستان میں دفن كیا گیا ۔ ( منتھی الآمال ) 
آپ كی شہادت ۲۵ رجب سن ۱۸۳ كو كاظمین ( بغداد )میں واقع ہوئی ۔

Saturday / 30 March / 2019