چهارشنبه: 1403/02/5
Printer-friendly versionSend by email
مباہلہ ؛ اسلام كے حقانيت كي بہترين دليل

جب پیغمبر اكرم (ص) نے نصاریٰ كو یہ تجویز پیش كی تو انھوں نے غور وفكر كرنے كی مہلت طلب كی اور پیغمبر (ص) نے انھیں غور كرنے كی مہلت دے دی ۔ وہ لوگ یكجا اكٹھا ہوئے تاكہ مباہلہ كے بارے میں مشورہ كریں انھوں نے اپنے ایك بزرگ سے پوچھا : اے عبدالمسیح تمھاراكیا خیال ہے ؟ اس نے جواب دیا : خدا كی قسم اے گروہ نصاریٰ تمہیں اچھی طرح سے معلوم ہے كہ محمد نبی برحق ہیں اور جو تجویز انھوں نے تمہارے سامنے ركھی ہے اس سے حق و باطل واضح ہو جائے گا ۔ خدا كی قسم جب بھی كسی نبی نے كسی قوم سے مباہلہ كیا وہ قوم زیادہ دن زندہ نہ رہ سكی اور جلد ہی ہلاك ہو گئی۔ اگر تم بھی ایسا كروگے تو تمہارا انجام بھی یہی ہوگا ، اگر تم اپنی بقاء چاہتے ہو تو اپنے اپنے گھروں كو واپس لوٹ جاؤ (۳)
تفسیر قمی میں اس طرح سے منقول ہے : جب پیغمبر اكرم (ص) نے عیسائیوں كو مباہلہ كی دعوت دی تو انھوں نے یكجا ہو كر مشورہ كیا اور یہ فیصلہ كیا كہ اگر محمد(ص) اپنی امت كو میدان میں لے كر آئیں تو ہم مباہلہ كریں گے اور اگر اپنے اہلبیت كو لے كر آئیں گے تو مباہلہ نہیں كریں كے چونكہ جب تك اپنی حقانیت كا یقین نہ ہو كوئی اپنے اہل و عیال كے لئے بد دعا نہیں كرتا ۔ صبح كو جب سب اكٹھا ہوگئے اور پیغمبر اكرم (ص) علی (ع) فاطمہ(س) اور حسنین (ع) كے ہمراہ میدان مباہلہ میں تشریف لائے تو نصاریٰ نے موقع كی نزاكت دیكھتے ہوئے پیغمبر سے عرض كیا ؛ اے محمد ہم جزیہ دینے كے لئے تیار ہیں آپ ہمیں مباہلہ سے معاف كر دیں اور پھر سب اپنے گھروں كو لوٹ گئے ۔ (۴)
پیغمبر اكرم (ص) سے منقول ہے كہ حضرت نے فرمایا : اس خدا كی قسم جس كے قبضے میں میری جان ہے ہلاكت اہل نجران كے سروں پر لٹك رہی تھی اگر وہ مباہلہ كر لیتے تو مسخ ہو جاتے ، صحرا میں آگ لگ جاتی اور سارے اہل نجران نابود ہو جاتے یہاں تك كہ درختوں پر رہنے والے پرندے بھی اس آگ كی زد میں آجاتے اور دوسری جگہوں پر رہنے والے عیسائی بھی ایك سال كے اندر ہلاك ہو جاتے اور روی زمین پر كوئی عیسائی باقی نہ رہ جاتا ۔ (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ سورہ نحل ،آیت/۱۲۵
۲۔ سورہ آل عمران آیت/۶۱
۳۔ المیزان ،ج/۳،ص/ ۳۶۴
۴۔ المیزان ،ج/۳،ص/ ۳۶۰
۵۔ المیزان ،ج/۳،ص/ ۳۶۵

Thursday / 15 January / 2015