پنجشنبه: 1403/01/9
Printer-friendly versionSend by email
حضرت عبدالعظیم حسنی علیه السلام سے یہ درس سیکھنا چاہیئے:
دین شناس حضرات کی خدمت میں اپنا عقیدہ بیان کرنے کی ضرورت
(حضرت عبد العظیم حسنی کی ولادت کی مناسبت سے مرجع عالیقدر آیت الله العظمی صافی گلپایگانی کا بیان)

ابوالقاسم عبدالعظیم بن عبدالله بن علی بن الحسن بن زید بن السبط الاكبر الامام ابی محمد الحسن المجتبی علیه‌الصلوة و السلام؛ رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم ذریت اور علی و بتول صلوات اللہ علیہم اجمعین کے فرزندوں میں سے ایک ہیں۔ آپ علماء علوم اہلبیت علیہم السلام کی معروف شخصیات، حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے بزرگ صحابہ اور اسرار ائمہ اطہار علیہم السلام کے محارم میں سے ہیں۔اور چونکہ ظاہری طور پر آپ امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمۂ زہراء علیہا السلام کے سلسلۂ نسب میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے ساتھ ایک ہی طبقہ میں ہیں لہذا آپ آنحضرت کے اصحاب میں سے بھی ہیں۔ اگرچہ ایک روایت کی بناء پر آپ نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کے زمانہ کو درک نہیں کیا ہے لیکن یہ قوی احتمال ہے کہ آپ نے آنحضرت کی خدمت کو درک کیا ہے.

اسلام کی اس عظیم شخصیت کے الٰہی اور ہمیشہ باقی رہنے والے کارناموں میں سے ایک اپنے وقت کے امام کی خدمت میں عرض دین کا مسئلہ ہے( یعنی آپ امام کے حضور اپنے دینی عقائد بیان کرتے تھے تا کہ امام عقائد کی تائید و تصحیح فرمائیں)۔ ایک ایسی شخصیت جب ’’عرض دین‘‘ کا اقدام کرے تو اس سے عقائد کی تصحیح کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، چاہے یہ واجب الاعتقاد ہوں یا اس سے بھی زیادہ۔

حضرت عبد العظیم حسنی علیہ السلام جیسی عظیم اور بزرگ شخصیت نے کتاب و سنت کے بارے میں اپنے تمام علم و آگاہی اور کتاب خطب امیر المؤمنین علیہ السلام کی تألیف کے باوجود یہ لازم جانا کہ اپنے وقت کے امام کی خدمت اقدس میں اپنے ان عقائد کو بیان کریں کہ جن کے آپ سو فیصد قطعی و حتمی اور یقینی طور پر معتقد تھے تا کہ امام علیہ السلام ان عقائد کی تصدیق کریں اور آپ اپنے امام علیہ السلام سے ان عقائد کے صحیح ہونے کی تائید دریافت کریں۔ اس رو سے دوسرے لوگوں کو بطریق اولٰی عرض دین جیسے اہم مسئلہ پر زور دینا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ اطمینان کے لئے قرآن و حدیث اور علوم اہبیت علیہم السلام کے علماء (جنہوں نے بزرگوں سے علم حاصل کیا ہے)میں سے کسی ایک عالم کے سامنے نہیں بلکہ متعدد علماء کے سامنے اپنے عقائد بیان کرنے چاہئیں۔

اس کے لئے مکمل تواضع اور عاجزی سے باخبر، مورد اطمینان، صحیح و غلط اور کامل و ناقص میں تشخیص دینے والے علماء کی خدمت میں اپنے عقائد بیان کریں۔

ہمارے زمانے میں ہم سب اور بالخصوص نوجوان نسل، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے عزیز  اور دیندار طلباء کو عرض دین اور دین شناسی جیسے اہم مسئلہ کی جانب مکمل توجہ کرنی چاہئے یعنی قرآن کریم اور احادیث اہلبیت علیہم السلام کے علماء کی خدمت میں اپنے عقائد بیان کریں اور دین کی تعلیم حاصل کریں۔ کیونکہ تحریف و تأویل، تصرف اور اعمال میں  اپنے ذاتی سلیقوں اور متعدد وجوہات کی بناء پر لوگ دین  کی تعلیمات دے رہے ہیں منجملہ بعض مغرب زدہ افراد عقائد اور دینی تعلیمات دینے میں مشغول ہیں کہ جو خود کو روشن فکر شمار کرتے ہیں اور جن کی اپنی کوئی علمی صلاحیت نہیں ہے لیکن وہ دینی امور کے ماہر بنے بیٹھے ہیں۔ انٹرویو، کانفرنس، تقاریر اور مقالات و مضامین لکھ کر اسلامی اقدار، لوگوں کے عقائد اور شرعی احکام کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایسا دکھاوا کرتے ہیں کہ روشن فکری کا مطلب ہے کہ کتاب و سنت کے دلائل، دینی اصطلاحات اور صرف قرآن و سنت تک ہی محدود نہ رہا جائے ۔ یہ نام نہاد روشن فکر حضرات متمدن دنیا میں علماء اور فقہاء کی علمی کاوشوں کو ردّ کرتے ہیں اور انہیں موجودہ زمانے کے مشرقی یا مغربی تقاضوں کے مطابق نہیں سمجھتے نیز وہ بعض شرعی، سماجی اور عدالتی آئین پر اعتراض کرتے ہیں اور عقائد میں بھی اپنی خاص عارفانہ اصطلاحات سے کتاب و سنت کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ المختصر یہ کہ وہ ایسی راہ پر چل رہے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی یہ راہ و روش جاری رکھی تو وہ بہت سے دینی فرائض کو پامال کر دیں گے۔

انبیاء کا اہم اور عظیم کام یہ تھا کہ انہوں نے خدا کی طرف لوگوں کی تبلیغ کی، انہیں مؤمن بنایا اور انہیں ان تعلیمات پر عمل کرنے کا پابند بنایا۔یہ ایک ایسا کام تھا جو کسی بھی طبقہ کے برجستہ اور فکری نوابغ انجام نہیں دے پائے اور نہ ہی انجام دے پائیں گے۔

ہر جگہ یہ روشن فکر افراد  ایسی ہی فکر اور ایسی ہی ذہنیت کے مالک ہوں گے اور وہ اس سے خارج نہیں ہیں ۔اور وہ اس بات پر افتخار کرتے ہیں کہ وہ ان تمام یا بعض عقائد پر اعتراض کرکے لوگوں کے اعتقادات کو کم کر رہے ہیں۔ یہ روشن فکر افراد بیگانوں کے حالات اور نظریات سے متأثر ہو کر اپنی فکر سے دین کی تفسیر کرتے ہیں اور اسلام کی بنیادوں پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں یا پھر ان کا انکار کرتے ہیں۔

افسوس ہے کہ ایسی راہ و روش پر چلنے والے افراد پر دین و مذہب کی طرف مائل ہونے یا  مذہبی ہونے کا لیبل لگا کر پیش کیا جاتا ہے کہ جو اکثر خواتین و حضرات پر اثرانداز  ہوتے ہیں اورجن کی وجہ سے بعض مسلم مذہبی مسائل اور اسلامی فرائض میں شکوک و شبہات اور وسوسہ ایجاد ہوتے ہیں ۔

یہاں یہ بات کہنا بھی ضروری ہے کہ ایسے مقبول، محترم اور مقدس مسائل کی توہین کرنا اور ان میں شکوک و شبہات ایجاد کرنا معاشرے میں شہرت بخش ہے ۔ چونکہ ایسے افراد صحیح طریقہ سے سماج میں اپنا نام نہیں بنا سکتے لہذا وہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسی راہ کا انتخاب کرتے ہیں اور اس راہ میں جس قدر زیادہ توہین و اہانت کریں، مسلّمات کا انکار کریں اور سماج کی اقدار پر حملہ کریں اتنا ہی ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا ہے اور جو لوگ ان اقدار کو اپنی خواہشات اورمنافع کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں؛ وہ ان کو زیادہ سراہتے ہیں۔

اکثر مغرب زدہ، جدید مسلک کے موجد، مؤلفین و مصنفین اور مقررین کو آزاد خیال، لبرل اور روشن فکر سمجھتے ہیں کہ جو مقدسات پر حملہ کرتے ہیں، سماجی اعتقادات کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کی کھلم کھلا توہین کرتے ہیں۔

مرتد سلمان رشدی کی کتاب ہر قسم کے استدلال اور منطقی و عقلائی اصولوں سے عاری تھی کہ جس میں کسی طرح کا کوئی عاقلانہ ردّ اور حکمت پر مبنی نکتہ نہیں تھا لیکن اس نے ایسے مقامات مقدسہ کی اہانت اور باعظمت شخصیات کی توہین کی کہ جن کا سب احترام کرتے ہیں اور انہیں محترم شمار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرنے اور اس کی اسی گستاخی کی وجہ سے وہ آزاد خیال، لبرل اور روشن فکر کے عنوان سے مشہور ہو گیا۔ اسلام اور مقدسات اسلام کی توہین کرنے کی وجہ سے استعمار نے اس کی حمایت اور دفاع کیا ورنہ اس کی کتاب میں کسی طرح کی کوئی منطقی و استدلالی بات نہیں ہے۔

ان وجوہات کی بناء پر اگر ہماری جوان نسل ان نام نہاد روشن فکر افراد کے گمراہانہ شر سے محفوظ رہنا چاہتی ہے اور دین اسلام کو اسی پاکیزگی اور اصل و اصیل منابع سے سیکھنا چاہتی ہے کہ جس طرح وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوا تھا تو اسے چاہے کہ وہ خود ان منابع کی طرف رجوع کرے اور کسی طرح کی تأویل و توجیہ کے بغیر کتاب و سنت کی دلالت کو حجت سمجھے  اور اسلام شناس ( یعنی مکتب اہلبیت علیہم السلام اور ان دو منابع پر غور و فکر اور تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ اسلام کی تعلیم حاصل کرنے والے ) افراد کی طرف رجوع کرے۔ ان ہستیوں کو سب لوگ جانتے اور پہنچانتے ہیں۔ اور وہ شخصیات ابوذر، مقداد، سلمان، سلیم، محمد بن مسلم، ابن ابی عمیر، فضل بن شاذان، ابن بابویہ، کلینی، شیخ طوسی، ان کے شاگرد، ان کے شاگردوں کے شاگرد اور عصر حاضر میں علماء و فقہاء اور مراجع کرام ہیں۔ یہ وہ علماء ہیں جنہوں نے مختلف زمانوں میں اصل اور اصیل منابع سے اسلام اخذ کیا اور آئندہ نسلوں کے سپرد کیا ہے۔ اگر یہ بااخلاص شخصیات نہ ہوتیں تو کوئی دوسرا طبقہ اس امانت کی حفاظت کے لئے کھڑا نہ ہوتا اور اصطلاح عارفانہ، مختلف افکار اور صوفیانی نظریات کے شور شرابے اور ہنگامے میں کوئی چیز ثابت اور خالص نہ رہتی اور نہ ہی اسلامی اعتقادات کے مبانی تحریف کے ضرر سے محفوظ  رہ پاتے۔

Thursday / 13 December / 2018