جمعه: 1403/01/10
Printer-friendly versionSend by email
اعتکاف کے احکام

تعریف

اعتكاف؛ یعنی مسجد میں ان قیود کے ساتھ توقّف کہ اس توقّف اور قیام میں قصد ہو اور اس میں تعبد و بندگی کی نیّت ہو۔ بہتر ہے کہ اعتکاف میں دوسری عبادات جیسے نماز اور روزه وغیرہ کو بھی نیت میں شامل کیا جائے۔

 

اعتكاف کا وقت

جس وقت بھی روزہ رکھنا صحیح ہو ،اس وقت اعتکاف بھی صحیح ہے لیکن اعتکاف کا افضل وقت ماہ مبارک رمضان  ہےاور ماہ مبارک رمضان میں بھی اعتکاف کا افضل وقت آخری عشرہ ہے۔

 

 

معتكف کی شرائط

- عقل

س. کیا ممیز بچہ کا اعتكاف صحیح ہے؟

ج. اقوی یہ ہے کہ اس کا اعتکاف صحیح ہے۔

 

- نیّت‌كرنا

* نیّت

س. کیا واجب یا مستحب اعتكاف میں وجوب یا استحباب کا قصد کرنا ضروری ہے؟

ج. یہ لازم نہیں ہے.

 

س. اگر اشتباہاً واجب اعتکاف کے لئے استحباب کی نیت کرے یا اس کے برعکس تو کیا کرنا چاہئے؟

ج. اس میں کوئی اشکال نہیں ہے.

 

س. کیا مستحب اعتکاف کے تیسرے دن تجدید نیّت کرنا ضروری ہے؟

ج. یہ ضروری نہیں ہے اگرچہ یہ احوط ہے۔

 

س. کیا اعتكاف میں اعتکاف کی نیت کے علاوہ دوسری عبادات کا قصد کرنے کی ضرورت ہے؟

ج. احتیاط کی بناء پر دوسری عبادات کا بھی قصد کیا جانا چاہئے۔

 

* نیّت کا وقت

س. اعتکاف کی نیّت کس وقت کرنی چاہئے؟ اعتکاف کا وقت کیا ہے؟ کیا رات کے شروع میں بھی نیت کر سکتے ہیں؟

ج. اعتکاف کی نیّت کا وقت فجر صادق سے پہلے ہے اور رات کے آغاز میں کی جانے والی نیت پر ہی اکتفاء کرنا مشکل ہے مگر یہ کہ رات کے آغاز میں کی جانے والی نیت فجر تک باقی ہو۔

 

س. کیا اعتکاف کی مراسم میں صبح کی اذان سے پہلے مسجد میں ہونا چاہئے؟ اگر اذان کے کچھ دیر بعد مسجدمیں آئیں تو اعتکاف کا کیا حکم ہے؟

ج. طلوع فجر صادق سے پہلے مسجد میں ہونا چاہئے۔

 

* نیّت کے وقت اعتکاف سے رجوع کرنے کی شرط

س. کیا انسان اعتکاف کے آغاز میں ہی نیت کرتے وقت یہ شرط کر سکتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی اتفاق یا مشکل پیش آئی( مثلا وہ شخص کہے کہ اگر موسم سرد ہو گیا) تو وہ اعتکاف کو ترک کر دے گا چاہے اعتکاف کا تیسرا دن ہی کیوں نہ ہو؟ کیا ضروری  ہے کہ وہ کسی خاص اتفاق یا کسی خاص مشکل کو مدنظر رکھے یا اس کی ضرورت نہیں ہے؟

ج. جائز ہے کہ نیت کے وقت (نہ اس سے پہلے اور نہ ہی اعتکاف کے شروع ہو جانے کے بعد) وہ اعتکاف سے رجوع کرنے کی شرط کرے کہ جب بھی وہ چاہے ،حتی تیسرا دن ہی کیوں نہ ہو اور چاہے کوئی سبب عارض نہ بھی ہو۔

 

س. کیا نذری اعتکاف (نذر کی وجہ سے واجب ہونے والا اعتکاف) میں انسان نذر کا صیغہ پڑھتے وقت یہ شرط کر سکتا کہ اگر کوئی مانع پیش آیا تو میں اعتکاف کو ترک کر دوں گا؟

ج. نذر میں اعتکاف سے رجوع کرنے کی شرط کے صحیح ہونے میں متأمل ہے بلکہ یہ ممنوع ہے۔ البتہ مشروط اعتکاف کی نذر صحیح ہے۔

 

س. آپ نے یہ فرمایا کہ معتکف کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ نیت کے وقت شرط کر سکتا ہے کہ (جب بھی وہ چاہے حتی تیسرا دن ہی کیوں نہ ہو) اعتکاف سے رجوع کر سکتا ہے۔ اگر نیت کے بعد وہ اپنی شرط کے حکم کو ساقط کر دے تو کیا اس کی شرط ساقط ہو جائے گی یا نہیں؟

ج. نیت کے وقت حتی تیسرے دن کے دوران بھی اعتکاف سے رجوع کرنے کی شرط کرنا جائز ہے اور ظاہر یہ ہے کہ شرط کا حکم ساقط نہیں ہو سکتا اگرچہ احتیاط آثار سقوط کی ترتیب میں ہے یعنی اگر دو دن مکمل ہو جانے کے بعد شرط کو ساقط کرے تو اعتکاف کو تمام کرے اور اعتکاف کو ترک نہ کرے۔

 

* نیّت سے عدول کرنا

س. ایک اعتکاف سے دوسرے اعتکاف کی طرف عدول کرنے کا کا کیا حکم ہے؛ اگرچہ دونوں واجب ہوں یا دونوں مستحب ہوں، یا ایک واجب اور دوسرا مستحب ہو، یا ایک اعتکاف اپنے لئے ہو یا دوسرا کسی کی نیابت میں یا دونوں اعتکاف کسی کی نیابت میں ہوں؟

ج. مذکورہ صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی ایک اعتکاف سے دوسرے اعتکاف کی طرف عدول کرنا جائز نہیں ہے۔

 

* نیابت

س. کیا کسی ایسے شخص کی نیابت میں اعتکاف انجام دے سکتے ہیں کہ جو وفات پا چکا ہو؟ اور کیاکسی زندہ کی نیابت میں اعتکاف انجام دے سکتے ہیں؟

ج. میت کی نیابت میں اعتکاف انجام دینا صحیح ہے اور زندہ کی نیابت میں اعتکاف بجا لانے میں اشکال ہے۔ البتہ رجاء کے قصد سے زندہ کی نیابت میں اعتکاف انجام دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

 

- روزه‌ رکھنا

*  روزه کی اقسام

س. کیا اعتکاف کے لئے ہر قسم کا روزہ کافی ہے ؛چاہے استیجاری روزہ ہی کیوں نہ ہو؟

ج. جی ہاں؛ اس کے لئے مطلق صوم (ہر قسم کا روزہ) کافی ہے۔

 

س. ماہ رمضان کے اعتکاف میں روزہ کی نیت کیسی ہونی چاہئے؟

ج. ماہ رمضان المبارک کے روزہ کی نیت سے روزہ رکھنا چاہئے۔

 

س. اگر کوئی شخص نذر کرے کہ وہ معین ایّام میں معتکف ہو گا۔ اگر انہی ایّام میں اس کے ذمہ نذری یا استیجاری روزہ ہوں تو کیا وہ شخص اسی اعتکاف میں اپنے نذری یا استیجاری روزہ رکھ سکتا ہے؟

ج. جی ہاں؛ اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔

 

* سفر کے دوران اعتکاف

س. کیا انسان سفر میں روزہ رکھنے کی نذر کر سکتا ہے؟

ج. اگر حضر میں ایسی نذر کرے تو صحیح ہے۔

 

س. کیا سفر کے دوران سفر میں روزہ  رکھنے کی نذر کر سکتا ہے؟

ج. یہ صحیح نہیں ہے۔

 

س. مسافر کو کس صورت میں اعتکاف کرنا چاہئے؟

ج. جن موارد میں مسافر کے لئے روزہ رکھنا صحیح ہے۔ جیسے یہ کہ اس نے وطن میں یہ نذر کی ہو کہ وہ سفر میں روزہ رکھے یا ایسے شہر میں کہ جہاں مسافر طلب حاجت کے لئے تین دن روزہ رکھ سکتا ہو۔

 

س. کسی شخص نے یہ نذر کی کہ وہ ماہ رجب کے ایّام البیض میں مسجد مقدس جمکران میں معتکف ہو گا اور یہ نذر کی کہ سفر کی صورت میں روزہ بھی رکھے گا، کیا اس کی نذر صحیح ہے؟ کیا اس کا اعتکاف صحیح ہے؟( اگرچہ وہ مسافر ہی کیوں نہ ہو)

ج. مذکورہ سوال کی رو سے اعتکاف صحیح ہے۔

 

س. کسی شخص نے مشہد مقدس میں اعتکاف کی فضیلت کو درک کرنے کے لئے مشہد پہنچنے کے بعد وہاں قیام کے قصد کے بغیر نذر کی کہ وہ تین دن روزہ رکھے گا۔ کیا ایسی نذر صحیح ہے؟

ج. صحیح نہیں ہے۔

 

س. مساجد مدینہ، کوفہ، مسجد الحرام، مسجد سہلہ اور مقامات مقدسہ ومشرفہ میں روزہ کی نذر اور قیام کے قصد کے بغیر مسافر کے اعتکاف کا کیا حکم ہے؟

ج. جس مقام پر روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے وہاں اعتکاف بھی صحیح نہیں ہے۔

 

* حرام سفر کے دوران اعتكاف

س. کیا حرام سفر کے دوران اعتکاف انجام دے سکتے ہیں؟

ج. مذکورہ سوال میں قصد قربت سے اعتکاف کے متحقق ہونے اور اعتکاف کی تمام شرائط کے حصول کی صورت میں اعتکاف صحیح ہے۔

 

* اعتكاف کے لئے اجازت

س. کیا عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کے لئے اپنے شوہر سے اجازت لے؟ حتی اگر اس کا معتکف ہونا شوہر کے حق سے کوئی منافات بھی نہ رکھتا ہو۔

ج. اگر عورت کا اعتکاف شوہر کے حق سے کوئی منافات نہ رکھتا ہو تو عورت کے اصل اعتکاف میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن چونکہ شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کا گھر سے باہر نکلناجائز نہیں ہے پس اگر عورت شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر مسجد میں اعتکاف کے لئے جائے تو اس وجہ سے اس کا اعتکاف باطل ہے۔

 

س. کیا عورت اپنے شوہر کے حکم پر تیسرے دن اپنے اعتکاف کو ترک کر سکتی ہے؟ اور اگر اس کا شوہر اسے اس کام پر مجبور کرے تو کیا کفارہ شوہر کے ذمہ ہو گا یا نہیں؟

ج. اگر زوجہ اپنے شوہر  کی اجازت سے معکف ہوئی ہو تو شوہر اسے اعتکاف کو ترک کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا لیکن مجبور کرنے کی صورت میں کفّارہ ثابت نہیں ہے۔

 

س. کیا بیٹے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کے لئے اپنے والدین سے اجازت لے؟ حتی اگر اس کا معتکف ہونا والدین کے لئے تکلیف، اذیت اور زحمت کا باعث نہ ہو؟

ج. اگر چہ والدین کے لئے اذیت کا باعث نہ ہو تو والدین کی اجازت شرط نہیں ہے۔ لیکن احتیاط بہتر ہے۔

 

- عدد (‌تین دن سے کم کا صحیح نہ ہونا)

س. تین دن سے کم اعتكاف كا کیا حکم ہے؟

ج. تین دن سے کم اعتکاف صحیح نہیں ہے۔

 

س.کیا معتکف چھ یا دس دن کے اعتکاف کی نیت کر سکتا ہے؟

ج. اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔

 

س. اعتکاف میں دن سے کیا مراد ہے؟ کیا دن کا اختتام غروب آفتاب ہے یا مغرب؟

ج. غروب سے مراد زوال حُمرِه مَشرقیّه (یعنی غروب کے وقت افق پر نمودار ہونے والی سرخی کا زائل ہو جانا)ہے كہ جسے عرف میں مغرب کہا جاتا ہے۔

 

س. اگر کوئی شخص تین دن بطور منفصل اعتکاف انجام دینے کی نذر کرے تو کیا اس کی نذر صحیح ہے؟

ج. صحیح نہیں ہے۔

 

- اعتكاف کی جگہ

س. جامع مسجد کی تعیین کا کیا معیار ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شہر یا گاؤں میں مساجد کی تعداد متعدد ہو؟ کیا ممکن ہے کہ مساجد جامع ایک دوسرے سے بہت نزدیک ہوں؟

ج. جامع مسجد ایسی مسجد ہے کہ جو کسی خاص گروہ کے لئے نہ بنائی گئی ہو اور اس  کے مقابلہ میں بازار، قبیلہ وغیرہ کی مساجد ہیں کہ جن میں شہر کے اکثر لوگ جمع نہیں ہوتے اور وہ مسجد بھی ان سب کے اجتماع کے لئے تیار نہیں ہوئی ۔ نیز ممکن ہے کہ جامع مسجد متعدد ہوں اور ایک دوسرے سے نزدیک بھی ہوں۔

 

س. جامع مسجد کے علاوہ حسینیہ (امام بارگاہ) اور یونیورسٹی کے نماز خانہ میں اعتکاف کا کیا حکم ہے؟

ج. جامع مسجد کے علاوہ دوسرے مقامات پر اعتكاف صحیح نہیں ہے۔

 

س.  شیعوں کا دوسرے اہل کتاب کی عبادت گاہوں یا مخالف فرقوں کی مساجد میں اعتکاف بجا لانے کا کیا حکم ہے؟

ج. اہل کتاب کی عبادت گاہوں میں اعتكاف صحیح نہیں ہے لیکن اہلسنت کی جامع مسجد میں اعتکاف بجا لانا جائز ہے۔

 

س. کیا تہران بزرگ میں کسی بھی محلہ کی جامع مسجد میں اعتکاف بجا لا سکتے ہیں؟

ج. اگر ان میں جامع مسجد کی خصوصیات ہوں تو ان  میں اعتکاف بجا لا سکتے ہیں۔

 

س. اگر کوئی شخص کسی ایسی مسجد میں اپنا واجب اعتکاف بجا لائے کہ جس کے بارے میں اسے بعد میں معلوم ہو کہ یہاں اعتکاف صحیح نہیں تھا تو اس کے اعتکاف کا کیا حکم ہے؟

ج. اگر واجب اعتكاف ہو تو اسے نئے سرے سے انجام  دے یا اس کی  قضا بجا لائی جائے۔

 

س. کیا مسجد مقدس جمکران یا اس کے تہہ جانے(Basement) میں اعتکاف بجا لانا صحیح ہے یا نہیں؟

ج. موجودہ دور میں اسے جامعیت کا عنوان حاصل ہے لہذا اس میں اعتکاف بجا لانا صحیح ہے؟

 

س. کیا مسجد کے اطراف کا حصہ ( جس سے مسجد کے صحن  کے عنوان سے استفادہ کیا جاتا ہے) بھی مسجد کا حکم رکھتا ہے؟

ج. صحن پر مسجد کا حکم لوگو نہیں ہوتا مگر یہ کہ اسے مسجد کے عنوان سے وقف کیا گیا ہو۔

 

س. کیا مسجد کی چھت، سرداب، محراب اور توسیع کی وجہ سے مسجد میں شامل ہونے والے دوسرے حصہ بھی مسجد کا جزء شمار ہوتے ہیں؟ اور کیا شک  کی صورت میں ان مقامات پر مسجد کا حکم لاگو ہوتا ہے؟

ج. مسجد کی چھت، سرداب اور محراب مسجد کا جزء ہیں اور جن جگہوں کا مسجد کے جزء کے قصد سے اضافہ کیا گیا ہو مثلاً خود مسجد کو توسیع دی گئی ہو تو اس صورت میں وہ حصے مسجد کا جزء شمار ہوں گے اور اگر اس بارے میں شک ہو کہ جس حصہ کا اضافہ کیا گیا ہے کیا وہ مسجدیت کے قصد سے تھا یا نہیں تو اس صورت میں وہ حصہ مسجد شمار نہیں ہو گا۔

 

* وحدت مسجد

س. کیا معتکف اعتکاف کا کچھ حصہ ایک جامع مسجد میں اور دوسرا حصہ کسی دوسری جامع مسجد میں بجا لا سکتا ہے؟

ج. نہیں؛ ایسا نہیں کر سکتے۔

 

س. کیا آپس میں متصل دو مساجد میں اس طرح سے اعتکاف جائز ہے کہ اعتکاف کے دوران کچھ اوقات میں ایک مسجد میں رہے اور کچھ اوقات دوسری مسجد میں رہے؟

ج. اعتكاف ایک ہی مسجد میں ہونا چاہئے اور مذکرہ سوال کی رو سے اعتکاف باطل ہے۔

 

س. اگر اعتكاف کچھ موانع کی وجہ سے ختم ہو جائے:

الف: کیا ان موانع کے برطرف ہو جانے کے بعد اسی اعتکاف کو اسی مسجد میں اختتام تک پہنچا سکتے ہیں؟

ب: کیا وہ اعتکاف کسی دوسری مسجد میں جاری رکھ سکتے ہیں؟

ج. اس اعتکاف کو اسی طرح جاری رکھنا صحیح نہیں ہے ، چاہے وہ اسی مسجد میں ہو یا کسی دوسری مسجد میں۔

 

*‌ مسجد کے وسائل کو ذاتی استعمال میں لانا

س. اعتکاف کی حالت میں مسجد کے وسائل کو ذاتی استعمال میں لانے کا کیا حکم ہے؟

ج. یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ یہ اعتکاف کے علاوہ بھی جائز نہیں ہے، البتہ اس سے اعتکاف باطل نہیں ہوتا۔

 

* غصبی جگہ اور اعتکاف

س. کیا اس شخص کا اعتکاف صحیح ہے کہ جس نے(اعتکاف میں) کسی دوسرے کی جگہ کو غصب کیا ہو یا عمداً غصبی قالین پر بیٹھے؟

ج. احتیاط کی بناء پر دونوں صورتوں میں اعتکاف باطل ہے اور دونوں صورتوں میں اگر دو دن مکمل کرنے کے بعد ہو تو احتیاط کرے کہ اعتکاف کو آخر تک پہنچائے نیز اگر نذر یا عہد کی وجہ سے اعتکاف واجب ہوا ہو اور چاہے اعتکاف کا پہلا دن ہو، احتیاط یہ ہے کہ اعتکاف کو مکمل کرے۔ جی ہاں! اگر غصب سے جاہل ہو یا یہ بھولے سے ہو تو اعتکاف صحیح ہے۔

 

س. اگر معتکف کسی دوسرے کی جگہ کو غصب کرے تو آپ نے فرمایا کہ اس کا اعتکاف باطل ہے۔  اگر وہ جاہل ہو یا عمد یہ کام انجام دے لیکن اب وہ اس پر پشیمان ہو اور اپنی جگہ کو تبدیل کر دے تو کیا اس کا اعتکاف صحیح ہے یا نہیں؟ اور اگر جان بوجھ کر ایسا کرے تو کیا اس کا کفارہ بھی ہے یا نہیں؟

ج. اس سوال کی رو سے اگر وہ اس چیز سے جاہل ہو تو اعتکاف صحیح ہے اور اگر جان بوجھ کر ایسا کرے اور جگہ کو غصب کرنے کے بعد اور اعتکاف کے عنوان سے وہاں بیٹھنے پر پشیمان ہو تو اس کا اعتکاف باطل ہے لیکن اس کا کفارہ نہیں ہے اگرچہ یہ بہتر ہے۔ اور اگر اعتکاف کے عنوان سے غصبی جگہ پر تصرف نہ کیا ہو بلکہ حق دار شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا دیا ہو اور خود کسی دوسرے کی جگہ جا کر اعتکاف کے لئے بیٹھے تو اس صورت میں اگرچہ اس نے حرام فعل انجام دیا ہے لیکن اس کا اعتکاف باطل نہیں ہے۔

 

* مسجد میں توقف

س. کن موارد میں معتکف مسجد سے خارج ہو سکتا ہے؟

ج. جن موارد میں عقلی یا شرعی یا عادی ضرورت ہو جیسے رفع حاجت کے لئے  یا جنابت اور استحاضہ کی وجہ سے غسل کے لئے، اور ان جیسے دوسرے موارد، اسی طرح گواہی دینے یا جنازہ میں شریک ہونے یا مریض کی عیادت اور تیمارداری کرنے کے لئے۔

 

س. معتكف ضروری موارد کے لئے کتنی مدت تک مسجد سے باہر رہ سکتا ہے؟

ج. ضروری امور کے لئے مسجد سے باہر جانے کی صورت میں اگر اتنی مدت تک مسجد سے باہر رہیں کہ جو اعتکاف کی صورت کو ختم کر دے تو اعتکاف باطل ہو جائے گا۔

 

س. جب معتکف رفع حاجت یا وضو کرنے کے لئے مسجد سے باہر جاتا ہے تو کبھی کبھار ایسا اتفاق بھی ہوتا ہے کہ تقریباً ۱۰ منٹ تک اپنی باری کے لئے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ کیا یہ عمل اعتکاف کو کوئی ضرر پہنچاتا ہے؟ اور کیا اس مدت کے دوران کچھ دوسرے کام انجام دے سکتا ہے جیسے برتن دھونا وغیرہ؟

ج. اگر رفع حاجت یا وضو کرنے کے لئے مسجد سے باہر جانا ضروری ہو اور اپنی باری کے لئے قطار میں کھڑے رہنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس مدت کے دوران دوسرے کاموں کو انجام دینے میں مشغول ہو جانا احتیاط کے برخلاف ہے لہذا انہیں ترک کرنا چاہئے۔

 

س. کن موارد میں معتکف کا مسجد سے خارج ہونا واجب ہے؟ اور اگر وہ واجب موارد میں بھی مسجد سے خارج نہ ہو تا کیا اس عمل سے اس  کے اعتکاف کو کوئی ضرر پہنچے گا؟

ج. اگر مسجد میں جنب ہو جائے تو مسجد سے خارج ہونا واجب ہے پس اگر وہ اس صورت میں بھی مسجد سے خارج نہ ہو تو اس کا اعتکاف باطل ہے لیکن واجب الأداء قرض کی ادائیگی یا کسی دوسرے واجب کام کو انجام دینے کے لئے مسجد سے خارج نہ ہو کہ جن کی انجام دہی مسجد سے خارج ہونے پر موقوف ہو تو اس صورت میں اس نے گناہ کیا ہے لیکن اس کا اعتکاف باطل نہیں ہو گا۔   

س. اگر اعتکاف کے دوران جائز یا واجب موارد میں مسجد سے خارج ہوں تو کیا اس ودران سائے میں چل سکتے ہیں؟ اور کیا سائے میں بیٹھ سکتے ہیں؟ اور کیا سب سے نزدیک راستہ کا انتخاب کرنا واجب ہے؟

ج. بہتر یہ  ہے کہ سب سے قریبی اور نزدیکی راستہ کی رعائت کی جائے اور واجب ہے کہ اس کا قیام ضرورت کے مطابق ہو نہ کہ اس سے زیادہ، اور واجب ہے کہ امکانی  صورت میں سائے میں نہ بیٹھے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ سائے میں نہ چلے، اور احتیاط یہ ہے کہ مطلق طور پر نہ بیٹھے مگر ضرورت کی صورت میں۔

 

س. مندرجہ ذیل موارد میں اگر اپنے اختیار سے عمداً( غیر مجاز موارد میں) مسجد سے باہر جائے تو اس کے اعتکاف کا کیا حکم ہے؟

الف: اگر اس کے حکم سے جاہل ہو۔

ب: اگر بھولے سے یا جبر و اکراہ کی وجہ سے مسجد سے باہر  جائے۔

ج(الف). اعتكاف باطل ہے۔

ج(ب). بھولنے اور نسیان کی صورت میں اشكال ہے اور احتیاط کی رو سے اعتکاف کو مکمل کیا جائے اور اگر اعتکاف واجب ہونے کی صورت میں اعتکاف کا اعادہ کرنا ترک نہ ہو۔ اور یہ بعید نہیں ہے کہ جبر و اکراہ ضروری موارد سے ملحق ہو اور اس صورت میں اعتکاف باطل نہ ہو۔

 

س. اگر معتکف اعتکاف کے تیسرے دن کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد سے خارج ہو جائے تو کیا اس صورت میں صرف قضاء ضروری ہے یا اسے کفارہ بھی ادا کرنا ہو گا؟

ج. اس سوال کی رو سے صرف قضا ہے اور کفّارہ نہیں ہے؟

 

س. کیا اعتکاف کے دوران واجب غسل جیسے غسل جنابت یا غسل مس میت میں تأخیر سے اعتکاف باطل ہو جاتا ہے؟

ج. غسل مس میت میں تأخیر سے اعتکاف باطل نہیں ہوتا لیکن چونکہ مسجد میں مجنب کا توقف کرنا اور ٹھہرنا حرام ہے لہذا غسل جنابت میں تأخیر بھی حرام ہے کہ جو اعتکاف کے باطل ہونے کا سبب ہے۔

 

س. کسی شخص کے مسوڑھوں سے خون آتا ہو اور وہ مسجد میں ہی اپنا منہ کسی برتن میں دھوئے اور بعد میں وہ پانی مسجد سے باہر گرا دے یا اس بارے میں تشریع واجب ہے یا مسجد سے باہر جا کر منہ دھونا ضروری ہے؟

ج. اگر یہ عمل مسجد کے نجس ہونے کا باعث نہ بنے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

س. مندرجہ ذیل موارد میں معتکف کے لئے مسجد سے باہر جانے کا کیا حکم ہے:

الف: وضو کرنے کے لئے؟

ب: مستحب غسل اور مسواک کرنے کے لئے‌؟

ج: غیر ضروری موارد میں بطور متعارف اور معمول کے مطابق اہل خانہ کو ٹیلی فون کرنے کے لئے؟

د: مسجد کی حدود سے باہر جا کر اہل خانہ سے ملاقات کے لئے؟

هـ: حوزه (مدرسہ) یا یونیورسٹی کے دروس میں شرکت کرنے کے لئے؟

و: نماز جماعت یا نماز جمعه کے لئے؟

ج. دروس، نماز جماعت، اہل خانہ کو ٹیلی فون کرنے، جلوس جلسہ یا اہل خانہ سے ملاقات کے لئے مسجد سے باہر جانے میں اشکال ہے بلکہ یہ ممنوع ہے۔ نماز جمعہ کے لئے مسجد سے باہر جانے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اسی طرح وضو، مستحب غسل اور اگر ضرورت ہو تو مسواک کرنے کے لئے مسجد سے باہر جانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

 

س. اگر کوئی شخص کسی مسجد یا مدرسہ میں امام جماعت ہو تو کیا وہ اعتکاف کی حالت میں نماز جماعت کی ادئیگی کے لئے مسجد سے خارج ہو سکتا ہے؟

ج. نماز جماعت کی ادائیگی کے لئے مسجد سے باہر جانے کے جواز میں اشکال ہے۔ البتہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد سے باہر جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

س. اگر اعتکاف کے دوران بدن کے کچھ حصہ پر خون لگ جائے تو کیا اسے مسجد سے باہر جا کر فوراً زائل کرنا چاہئے یا اس میں تاخیر بھی جائز ہے؟

ج. اگر اس نے ابھی نماز نہ پڑھنی ہو تو اسے فوراً پاک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

  

س. مسجد میں کھانا صرف کرنے کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا اعتکاف میں بیٹھے افراد کے لئے مسجد کے احاطہ میں موجود کھانے کے ہال میں کھانا کھانا جائز ہے؟

ج. جائز نہیں ہے۔

  

- اعتكاف کو توڑنا

س. انسان کن مواقع پر اپنے اعتکاف کو توڑ سکتا ہے اور کن موارد میں اعتکاف نہیں توڑ سکتا؟

ج. جب اعتکاف مستحبّ ہو تو وہ پہلے دو دن میں اعتکاف کو توڑ سکتا ہے اور اگر واجب اعتکاف ہو جیسے نذری اعتکاف (نذر کی وجہ سے واجب ہونے والا اعتکاف) اور اگر اس نے اعتکاف کا وقت معین کیا ہو تو اسے حتی پہلے دن بھی اعتکاف کو توڑنے کا حق حاصل نہیں ہے، اور اگر نذر میں اعتکاف کا وقت معین نہ کیا ہو تو اس کا حکم مستحب اعتکاف کی طرح ہے اور وہ پہلے دو دن میں اعتکاف کو توڑ سکتا ہے۔

 

س. اگر کوئی اعتکاف کے دوران بیمار ہو جائے ( اور اس نے پہلے کوئی شرط نہ کی ہو) تو کیا وہ تیسرے دن اعتکاف کو توڑ سکتا ہے؟

ج. جو بیماری روزہ کے باطل ہونے کا سبب بنتی ہے، اس سے اعتکاف بھی باطل ہو جاتا ہے، چاہے اعتکاف کا تیسرا دن ہی کیوں نہ ہو۔

 

س. اگر اعتکاف میں بیٹھی عورت کو طلاق رجعی دے دیں تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ اور اس کے اعتکاف کا کیا حکم ہے؟

ج اس سوال کی رو سے مطلّقه کا اعتکاف باطل ہے اور اسے چاہئے کہ وہ عدت گذارنے کے لئے گھر چلی جائے اور اگر اس کا اعتکاف واجب موسّع ہو تو عدت گذارنے کے بعد اسے نئے سرے سے انجام دے اور اگر اس کا اعتکاف واجب معین ہو تو اس صورت میں اگر اعتکاف کے تیسرے دن طلاق واقع ہو تو بعید نہیں ہے کہ وہ اعتکاف کو تمام کرنے کے بعد اعتکاف سے خارج ہونے اور اعتکاف کو باطل کرکے فوراً خارج ہونے کے درمیان مخیر ہو، اور اگر اعتکاف اجارہ، نذر یا ان جیسے دوسرے امور کی وجہ سے واجب معین ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اعتکاف سے خارج ہو جائے۔

 

س. اگر معتکف واجب اعتکاف کے دوران (نذر وغیرہ کی وجہ سے واجب ہونے والا اعتکاف) مر جائے تو کیا اس کے ولی پر اس اعتکاف کی قضا بجا لانا واجب ہے؟

ج. اس سوال کی رو سے ولی پر اس اعتکاف کی قضا بجا لانا واجب نہیں ہے اگرچہ یہ بہتر ہے۔ جی ہاں! اعتکاف کی حالت میں روزہ کی نذر کی ہو تو ولی پر اس کی قضا واجب ہے۔

 

- اعتكاف کے محرمات

س. معتکف پر کون سی چیزیں حرام ہیں؟

ج. اس بارے میں تفصیلی کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔ اجمالی طور پر اعتکاف کے محرامات یہ ہیں:

1- عورت سے مباشرت 2- خوشبو سونگھنا 3- خرید و فروش 4-‌ دینی یا دنیاوی امور کے بارے میں جدال

 

س. اعتکاف کی حالت میں ناخن یا بال کاٹنے ( مثلا سر اور چہرے کی اصلاح) کا کیا حکم ہے؟

ج. اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ انہیں ترک کیا جائے۔ البتہ اگر چہرے کی اصلاح سے مراد داڑھی منڈوانا ہو تو یہ حرام ہے۔

 

س. معتکف کے لئے عطر لگانے، کنگھا کرنے اور آئینہ میں دیکھنے کا کیا حکم ہے؟

ج. خوشبو سونگھنا جیسے عطر اور ریاحین معتکف کے لئے حرام ہے لیکن کنگھا کرنا اور آئینہ میں دیکھنا حرام نہیں ہے اگرچہ انہیں ترک کرنا بہتر ہے۔

 

س. کیا اعتکاف کی حالت میں لذت کی غرض سے عطر اور خوشبودار جڑی بوٹیوں کو سونگھنا حرام ہے یا اگر اس سے لذت بھی حاصل نہ کرے تو کیا یہ جائز نہیں ہے؟

ج. عطریات کے سلسلہ میں حرمت میں لذت کے اعتبار میں محل تأمل ہے لیکن پھولوں کے بارے میں یہ بعید نہیں ہے کہ حرمت؛ لذت کے موارد سے مخصوص ہو۔ جی ہاں! جس کی قوۂ شامہ (سونگھنے کی حس) فاقد ہو اس کے لئے اس میں اشکال نہیں ہے۔

 

س. اعتکاف کی حالت میں بیوی اور شوہر کے لئے مندرجہ ذیل موارد کا کیا حکم ہے؟

الف: لمس کرنا

ب: چومنا

ج: شہوت کی نظروں سے دیکھنا

د: ٹیلی فون پر شہوت آمیز گفتگو کرنا

ج(الف اور ب). احتیاط کی بناء پر معتکف اور معتکفہ کے لئے شہوت سے ‌لمس کرنا اور چومنا حرام ہے بلکہ اعتکاف کے باطل ہونے کا باعث ہے۔

 (ج اور د). بیوی کو شہوت کی نظروں سے دیکھنا جائز نہیں ہے اگرچہ اسے ترک کرنے میں احتیاط ہے اور اسی طرح جس کے ساتھ اعتکاف کے علاوہ دوسرے موارد میں شہوت آمیز گفتگو کرنا جائز ہے، اس سے اعتکاف کے دوران بھی ٹیلی فون پر شہوت آمیز گفتگو کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

 

س. کیا ضروری موارد میں خرید و فروش کر سکتے ہیں؟ کیا ان امور میں کسی دوسرے شخص کو وکالت دے سکتے ہیں کہ وہ اس کی طرف سے خرید و فروش انجام دے یا خرید و فروخت کے علاوہ قرض اور بخشش کو منتقل کرے؟

ج. اگر خود اعتکاف میں کھانے اور پینے کے لئے خرید و فروش ہو اور اس کی ضرورت ہو، نیز اس کام کے لئے کسی کو وکیل بنانے سے بھی معذور ہوں اور خرید و فروش کے علاوہ حاجت رفع نہ ہوتی ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

 

س. کن امور میں مجادلہ (بحث میں نزاع و اختلاف) حرام ہے؟

ج. جب دینی یا دنیاوی امور کے بارے میں مجادلہ اور بحث کا مقصد طرف مقابل پر غلبہ پانا اور اس پر اپنی فضیلت کا اظہار کرنا ہو تو یہ حرام ہے۔ لیکن اگر مجادلہ کا ہدف و مقصد حق کا اظہار کرنا ہو یا اس کام کے لئے مجادلہ کیا جائے کہ طرف مقابلہ اپنی خطا سے دستبردار ہو جائے تو اس میں اشکال نہیں ہے بلکہ اس قسم کا مجادلہ اور بحث بہترین اعمال میں سے شمار ہوتا ہے۔

 

س. اگر معتكف کی عادت یہ ہو کہ استمتاع کی صورت میں یا ذہن میں بعض افکار آ جانے سے اس کی منی خارج ہو جائے تو کیا ان کاموں کی وجہ سے منی خارج ہو جانے کی صورت میں اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس کی یہ عادت نہ ہو اور منی خارج ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس کی یہ عادت ہو لیکن منی خارج نہ ہو تو کیا اس صورت میں بھی اس کا کوئی حکم ہے؟

ج. اگر عمدی طور پر اور جان بوجھ کر ایسا نہ کرے اور یہ بے اختیار ہو جائےتو کوئی اشکال نہیں ہے۔

 

- اعتكاف کے محرمات  کا کفارہ

س. اگر معتكف واجب یا مستحب اعتکاف کو جماع کے ذریعہ باطل کرے تو کیا اس پر کفارہ واجب ہے؟ کیا رات یا دن میں یہ عمل انجام دینے کی وجہ سے حکم میں کوئی فرق ایجاد ہوتا ہے؟ کیا اس عمل کو اعتکاف کے پہلے دو دنوں یا تیسرے دن میں انجام دینے کی وجہ سے حکم میں کوئی فرق ایجاد ہوتا ہے؟

ج. واجب اعتکاف کے دوران اگر جماع رات میں بھی ہو تو اس سے کفارہ واجب ہو جاتا ہے اور مستحب اعتکاف میں اگر یہ دو روز مکمل ہونے کے بعد انجام دیا جائے تو احتیاط کی بناء پر اس کا کفارہ ہے اور اگر اس سے پہلے انجام دیا جائے تو کفارہ کا واجب ہونا معلوم نہیں ہے۔

 

س. اگر واجب اعتکاف کے دوران قضاء روزہ رکھے اور پھر ظہر کے بعد اپنا روزہ باطل کرے تو اس پر کتنے کفارہ واجب ہیں؟ اور اگر اعتکاف مستحب ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

ج. واجب اعتکاف میں دو کفارہ ہیں اور مستحب اعتکاف میں چونکہ اس نے روزہ کی قضا کو ظہر  کے بعد باطل کیا ہے لہذا اس پر ایک کفارہ واجب ہے اور اگر اس نے اعتکاف کے تیسرے دن باطل کیا تو احوط یہ ہے کہ اس عنوان سے بھی کفارہ لازم ہے۔

 

- اعمال امّ داوود

س. مفاتیح الجنان کے مندرجات کے مطابق اعمال ام داؤود اذان ظہر کے بعد شروع ہوتے ہیں لیکن بعض مساجد میں اعتکاف کی مراسم کے دوران مجالس اور نوحہ خوانی کی وجہ سے اعمال کو اذان ظہر سے دو گھنٹے پہلے شروع کر دیتے ہیں اور ان کا یہ موقف ہوتا ہے کہ یہ تمام اعمال مستحب ہیں لہذا اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ اذان سے پہلے ہوں یا بعد میں۔ کیا یہ کام صحیح ہے؟

ج. اگر ثواب کے عنوان سے رجاءاً انجام دیا جائے تو اس  میں کوئی مانع نہیں ہے۔

 

Tuesday / 14 March / 2017