پنجشنبه: 1403/01/9
Printer-friendly versionSend by email
امیر کلام ؛ امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کی شہادت کے چودہ سو سال کی مناسبت سے آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانی دامت برکاتہ کا کتاب شریف نہج البلاغہ کی مدح و توصیف میں خصوصی بیان

بسم الله الرحمن الرحیم

 ہمارے آقا و مولا امیر المؤمنین حضرت امام علی علیه ‌السّلام  نے فرمایا :

’’ إِنَّا لَأُمَرَاءُ الْكَلَامِ وَ فِینَا تَنَشَّبَتْ‏ عُرُوقُهُ‏ وَ عَلَیْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُونُه‏ ‘‘ (۱)

جب امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے فرمودات اور نہج البلاغہ کی وسیع دنیا کے بارے میں بات کی جائے تو بندۂ حقیر سب سے چھوٹا ذرّہ اور ذرّ سے بھی زیادہ حقیر شمار  ہوتا ہے ۔ لیکن میں جسارت کرتے ہوئے خود کو اس بے نظیر کتاب کی مدح و توصیف کرنے والوں میں سے قرار دیتا ہوں : ’’ فَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ‘‘۔

 

نهج‌البلاغه ؛ سب فنون اور تمام حقیقی علوم میں بلاغت ہے :

 الٰہیات و عالم غیب اور ما فوق طبیعت امور کے بیان میں بلاغت ، آیات آفاقیہ و انفسیہ الٰہیہ کے بیان میں بلاغت ،  عالی ترین مواعظ اور حکمتوں کے بیان میں بلاغت ، سماج کی سعادت کے اصولوں کے بیان میں بلاغت ، سیاست مُدُن کے درس میں بلاغت ، نبوت کے تعارف اور بالخصوص خاتم الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کے بیان میں بلاغت ، اخبارِ غیبی کے بیان میں بلاغت اور بلاغت اور بلاغت اور بلاغت

اگر مشہور اور نامور فضلاء و بلغاء کی فصاحت و بلاغت  صرف جنگ ، گھوڑوں اور تلواروں جیسے عناوین کی توصیف  کے بارے میں تھی تو امیر سخن امام علی علیہ السلام کی بلاغت حقائق اور متعالی معانی کو بیان کرتی ہے کہ جنہیں سمجھ جانے والے نابغہ اپنی بصیرت و بینش پر افتخار کرتے ہیں ۔

اس کتاب کی بے شمار شروحات لکھی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود اب بھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کی کوئی شرح نہ لکھی گئی ہو ۔ لہذا مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بزرگ محققین کو اس کتاب کی شرح لکھنی چاہئے اور پھر لکھنی چاہئے اور (اس کی شرح ) لکھتے رہنا چاہئے ۔

  نهج‌البلاغه ؛ علی علیه ‌السّلام کا سخن ہے ، اور ایک شدید القویٰ اور ماہر معلم کا کلام ہے کہ جس کی توصیف میں کہا گیا ہے :

  ’’یَتَفَجَّرُ الْعِلْمُ مِنْ جَوَانِبِهِ وَ تَنْطِقُ الْحِكْمَةُ مِنْ نَوَاحِیه ‘‘ )  اور پھر کہا گیا ہے : ’’ کَلامُهُ دُونَ کَلامِ الخَالِقِ وَ فَوْقَ کَلامِ الْمَخْلُوقینَ ‘‘ (۳)

نیز یہ بھی کہا گیا ہے : ’’ ألا إنَّما التَّوْحیدُ لَوْلا عُلومُهُ *  كَعَرْضَةِ ضِلّیلٍ وَ نَهْبَةِ كافر ‘‘ (۴)

 نهج‌البلاغه ؛ امیر سخن امام علی علیه‌السّلام کا کلام ہے ۔ ہم پھر اور اس کے بعد پھر اس کی مدح و ستائش میں کہیں گے کہ علی علیہ السلام کا کلام ، عظیم کلام ہے  کہ جس کے وجود کے تمام پہلوؤں میں عظمت  اور  خدائے قادر متعال کی بے انتہاء قدرت کی آیات و نشانیاں ہیں ۔

’’ فَقَد کان عَظِیماً فی إیمانِه، عظیماً فی عِلْمِه، عظیماً فی بَصیرَتِه، عظیماً فی زهده و تقواه، عظیماً فی بُطُولاته و تَضْحِیاتِه، عظیماً فی نُصْرة الحقِّ وَ إقامة العَدْل، عظیماً فی اعلاء کلمة الله، عظیماً فی رَحْمِة للضُّعَفاء وَالمَساکِین وَ فِی مُواساتِهِ مَعَ الفُقَراء، وَ فِی خَوفِهِ مِنَ اللهِ تَعالى، عظیماً فی فَصاحَتِه وَ بَلاغَتِه، عظیماً فی کلّ أفْعالِه فَتَعالَى اللهُ العَلیّ العظیم خالقُ هذا الإنْسانِ، و مُودّعُ هذه العظمات فیهِ، فَتعالى الله خالقُ هذا الکون الْمُتَصاغِر لِعَظَمَته، وَ المُتَذَلِّل لِجَلالِه وَ جَبَرُوتِه وَ سُلْطَانِه، وَ خائف مِنْ کِبْریائِه، صاحِب هذه العَظَمات وَ المُعْتَرِف عِنْدَه بِعَجْزِهِ وَ فَقْرِه إلَیْهِ: إِلَهِی كَفَى بِی عِزّاً أَنْ أَكُونَ لَكَ عَبْداً وَ كَفَى بِی فَخْراً أَنْ تَكُونَ لِی رَبّاً ‘‘  )

 لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم عملی میدان میں نہج البلاغہ جیسی گرانقدر اور عظیم کتاب سے بہرہ مند ہونے سے بہت دور ہو چکے ہیں ۔ ہم سب کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اس عظیم کتاب کو سماج میں رائج کریں کہ جو اب واقعاً مظلوم واقع ہو چکی ہے ۔

 

حوالہ جات :

۱- نهج‌البلاغة، حكمت ۲۳۳

۲- بحار الأنوار، جلد ۴۱، باب ۱۰۷، حدیث ۲۸؛ تاریخ مدینة دمشق ابن عساكر، جلد ۲۴، صفحه ۴۰۱

۳- شرح نهج‌البلاغة ابن ابی‌الحدید، جلد ‏۱، صفحه ۲۴

۴- آگاه‌ ہو جاؤ کہ اگر اس کے علوم و دانش نہ ہوتے تو توحید اس طرح سے خراب ہوجاتی کہ جس طرح کوئی گمراہ شخص پیش کرتا ہے اور جس طرح کافر اسے غارت کرتا ہے ۔/ القصائد السبع العلویات ابن ابی‌الحدید، القصیدة الخامسة.

۵- بحار الأنوار، جلد ۹۱، باب ۳۲، حدیث ۱۰

Saturday / 15 June / 2019