پنجشنبه: 1403/01/9
Printer-friendly versionSend by email
امر اہل بیت علیہم السلام کو احیاء کرنے والوں کے لئے امام رضا علیہ السلام کی دعا
آیت اللہ العظمی لطف اللہ صافی مدظلہ العالی کے نوشتہ جات میں عیون اخبار الرضا علیہ السلام سے ایک حدیث کی شرح

گرانقدر کتاب ’’ عیون اخبار الرضا علیه آلاف التحیة و الثناء ‘‘ میں جلیل القدر محدث ، شیخ اعظم صدوق رضوان ‌الله تعالی علیه نے عبد السّلام بن صالح ہروی سے روایت کیا ہے کہ حضرت امام رضا علیه السلام نے فرمایا : «رَحِمَ اللهُ عَبداً أحیی أمرَنا؛ فَقُلتُ لَه: وَ کَیفَ یُحیی أمرُکُم؟ قَال: یَتَعَلَّم عُلُومَنا وَ یُعَلِّمُها النَّاسَ، فَإنَّ النَّاسَ لَو عَلِمُوا مَحَاسِنَ کَلامِنا لَاتَّبَعُونَا؛ خدا اس بندہ پر رحم کرے ؛ جو ہمارے امر کو زندہ کرے ۔ عبدالسّلام کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : آپ کے امر کو کس طرح زندہ کرے ؟

آپ نے فرمایا : ہمارے علوم سیکھے اور لوگوں کو سکھائے ؛ کیونکہ اگر لوگ ہمارے کلام کے حسن اور خوبصورتی کو جان لیں تو وہ ہماری پیروی کریں گے ۔»(1)

اس مبارک حدیث کے متعلق دو نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :

* معارف کی حفاظت اور ان کی نشر و اشاعت کا لازم ہونا

احادیث نقل  کرنے ، معارف بیان کرنے اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے کلمات و علوم  لوگوں تک پہنچانے کی اتنی اہمیت ہے کہ اسے اہلبیت علیہم السلام کے امر کو زندہ کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ؛ یعنی ان کے امر کو زندہ  کرنا ، ان کی راہ و روش اور ان کے علوم و معارف و ہدایات کو زندہ کرنا ہے ، اور انہیں زندہ رہنا چاہئے ۔ ان کے اقوال و فرمودات کو سیکھنے ، ان کی حفاظت کرنے ،  انہیں کتابوں میں محفوظ کرنے اور لوگوں تک پہنچانے سے ہی ان کے امر کو  زندہ رکھا جاتا ہے ۔ حدیث کو روایت کرنا ؛ حقیقت میں ان بزرگ ہستیوں کی راہ و روش اور ان کی مأموریت و ہدایات کو جاری رکھنا ہے۔

*  معارف کی نشر و اشاعت میں محدثین کا  کردار

اگر حدیث کی حفاظت ، نقلِ روایات اور محدّثین کی زحمتیں نہ ہوتیں تو زندگی کے مختلف ظاہری ، معنوی ، دنیوی اور اخروی شعبوں میں ائمہ علیہم السلام کے بے انتہا اور لا محدود علوم باقی نہ رہتے اور آج یہ سب سے بڑی دولت ، علمی ذخائر ، معرفت  اور کافی ، استبصار ، تہذیب ، من لایحضره الفقیه اور آخر میں بحار الأنوار جیسی کتابوں میں مکتوب صورت میں ہمارے پاس نہ ہوتے ۔

وحی  کے آثار اور خدا کے عظیم الشأن پیغمبر حضرت خاتم الأنبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی حفاظت کرنے میں تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں ائمہ علیہم السلام کے بعد سب سے زیادہ محدثین کا کردار ہے ۔

حدیث کی حفاظت ،رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے حدیث کو محفوظ کرنے ، روایت کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی خاص تاکید اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔ احادیث کو  محفوظ کرنے اور روایت کرنے کی تاکید میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہی معروف حدیث کافی ہے کہ جس میں آپ نے  فرمایا : «نَضَّرَ اللهُ عَبْداً سَمِعَ مَقَالَتِی فَوَعَاهَا وَ بَلَّغَهَا مَنْ لَمْ یَسمَعها فَکَم مِن حَامِلِ فِقْهٍ غَیرَ فَقِیهٍ وَ کَم مِن حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْه»(2) یعنی: خداوند اس شخص  کو شاداب اور خوشحال قرار دے جو میرے سخن و گفتار کو سنے ، اس کی حفاظت کرے اور اسے ان لوگوں تک پہنچائے کہ جنہوں نے اسے نہیں سنا۔ پس کبھی فقہ کا حاملِ فقیہ نہیں ہوتا اور کبھی فقہ کا حامل اور فقہ پہنچانے والا کسی ایسے تک فقہ کو پہنچاتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہے ۔

المختصر یہ کہ شرعی ، اسلامی ، اعتقادی اور علمی مسائل کے حل ، صحیح خدا شناسی  ، پیغمبر و امام کی معرفت ، شرح و نظامات کے احکام ، سیاست ، اخلاق ، خراج اور اقتصاد میں سب مسلمان ؛ حدیث کے محتاج ہیں  اور وہ بزرگوں اور محدثوں کے احسان مند ہیں کہ جنہوں نے ائمہ علیہم السلام کے آثار کی بطور احسن حفاظت کی ، یہاں تک کہ انہوں نے کبھی ایک حدیث سننے کے لئے دشوار گزار اور دور دار کے علاقوں کے سفر کئے ۔ معارف اہل بیت علیہم السلام جمع کرنے کے سلسلہ میں ان کا عشق اس بات کا موجب بنا کہ جن ادوار میں احادیث اور علوم اہل بیت علیہم السلام کو نقل اور اخذ کرنے کی وجہ سے بہت بڑے خطروں ، قید و زندان کی صعوبتوں اور قتل جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن ان سب مشکلات کے باوجود ان بزرگوں نے فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان خوفناک اور وحشتناک خطروں کا سامنا کیا اور روایات کی حفاظت کی اور انہیں نقل کرنے کے سلسلہ میں اپنی بہت ہی سنگین اور حساس ذمہ داری کو ادا کیا ۔

* نقل احادیث میں تاریخی ظلم

علم حدیث کی تاریخ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد پہلے حاکم نے بہت ہی مخفیانہ انداز سے «حَسبُنا کتابُ الله»(3) کا لبادہ اوڑھ کر اور قرآن کی تعظیم کا بہانا بنا کر حدیث نقل کرنا ممنوع قرار دے دیا ، حالانکہ انہوں نے حضرت فاطمۂ زہراء علیها السّلام کے اموال (اور حق)  کو غصب کرنے کے من گھڑت روایات کو دلیل قرار دیا ۔

وہ نقل حدیث کے عمل کی نگرانی کرنے لگے تا کہ وہ اپنے سیاسی راستے سے خارج نہ ہو جائیں اور پھر نوبت یہاں تک آ گئی کہ معاویہ کے زمانے میں حتی ابن عباس  جیسی شخصیت کو بھی حدیث نقل کرنے  کی آزادی نہیں تھی ۔ جیسا کہ عامّہ (اہل سنت) کی کتبِ رجال میں نقل کرتے ہیں کہ حسن بصری (جس کے پاس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایات مرسلہ ہیں) کہتا ہے : میرے پاس تمام روایات علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے واسطے سے ہیں لیکن بنی امیہ کی سیاست کے خوف سے میں علی (علیہ السلام ) کا نام لینے سے گریز کرتا ہوں ۔

ہم یہاں حدیث کے سفر یا حدیث پر حکمرانوں اور بالخصوص بنی امیہ اور بنی عباس کے حکمرانوں کی سیاست  کے اثرات کے  بارے میں گفتگو نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی ہم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کو احیاء کرنے میں ائمہ طاہرین علیہم السلام کے  کردار ، اور آپ  کے اصحاب اور شاگردوں کی کوششوں کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں ؛ بلکہ ہم صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ائمہ اطہار علیہم السلام اور آج تک ان کے علوم کے حامل حضرات کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ سینکڑوں کتابوں ، اصل اور جامع حدیث کے ذریعے یہ بیکراں علوم محفوظ ہو کر ہم اور آئندہ مسلمان نسلوں تک پہنچ رہے ہیں ۔

ائمہ طاہرین علیہم السلام سے مختلف حالات و واقعات کے دوران حدیث نقل کرنے والے شاگردوں اور راویوں کی تعداد ؛ درج ہونے والی تعداد سے کہیں زیادہ ہے ، مثلاً حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کے ایک حصہ میں آپ سے حدیث نقل کرنے والوں کی تعداد چار ہزار افراد سے زیادہ شمار کی گئی ہے ۔ (۴)

تمام ائمہ اطہار علیہم السلام نے شاگردوں کی تربیت کی اور انہیں اسلامی علوم منجملہ تفسیر قرآن ، فقہ اور دیگر علوم کی تعلیم دی ، ان بزرگوں سے کبھی بھی حدیث کا شعبہ منقطع نہیں ہوا ، اور جیسا کہ تاریخ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس چیز نے دین کو تحریف و تغییر سے محفوظ رکھا ، بدعتوں کا مقابلہ کیا اور ان کے بطلان کو آشکار کیا تو وہ قرآن مجید کے بعد اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کی احادیث ہیں ۔

مثال کے طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد مسلمان جس قدر بھی آنحضرت کے زمانے سے دور ہوتے گئے ، تو احکام میں مختلف نظام ، حکومتوں اور ان کے دستر خوان پر پلنے والے درباریوں کا تصرف بھی زیادہ ہوتا گیا ، یہاں تک کہ (پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد ) صحابہ  کے ابتدائی دور میں ہی یہ کہا جاتا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے کی ہر چیز بدل چکی ہے ۔ 

ایسے حالات میں جیسے ہی امام باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کو حقائق کے اظہار اور احکام کو بیان کرنے کا موقع ملا تو آپ اس انداز سے میدان میں آئے کہ سب تحریفات ، شبہات اور انکار شدہ امور برطرف ہو گئے ؛ حتی دیصانی  اور ابن ابی العوجاء جیسے ملحدوں نے بھی حق  کا اعتراف کیا ۔ مأمون کے زمانے میں خاص سیاسی مقاصد  کے حصول اور قرآن و علوم اہل بیت علیہم السلام کی مخالفت کی غرض سے فلسفہ کی کتابوں کا ترجمہ  کیا جاتا تھا اور ان کی نشر و اشاعت کی جاتی تھی اور خود مأمون ان کی تائید و ترویج کرتا تھا ۔ جدید اصطلاحات کی وجہ سے دینی افکار بہت متزلزل ہوئے ؛ لیکن حضرت امام رضا علیہ السلام کی شخصیت کے ظہور نے دنیائے اسلام کو متأثر کر دیا اور آپ  کے دوسرے فرقوں کے علماء اور اہل الحاد (ملحدین) کے ساتھ ہونے والے مناظرات و احتجاجات نے اسلامی عقائد کو محکم و استوار اور اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا ۔

*  غیبت کبریٰ میں محدثین کا عظیم کردار

ائمہ طاہرین علیہم السلام کے زمانے کے بعد ہمیشہ (ایسے) حاملانِ حدیث موجود تھے جو بدعت کوو سنت اور حق کو باطل سے تشخیص دیتے تھے اور لوگوں کو فلسفہ پر غور کرنے ، عرفان مصطلح اور الحادی  مکاتب میں بیان ہونے والی گمراہیوں سے نجات دیتے تھے ، اور بالآخر اس اواخر یعنی صفویہ کے زمانے ( جس میں رسمی طور پر تشیّع کی تجدید ہوئی) تک یہ اعلان ہوتا تھا اور شاہ طہماسب اوّل کی سلطنت کے بعد وجود میں آنے والے کچھ خاص عوامل کی وجہ سے آہستہ آہستہ فلسفہ ، صوفیانہ افکار اور غیر شرعی مکاتب و مشارب کی طرف رغبت میں شدت آ گئی ؛ یہاں تک کہ اصفہان میں خانقاہیں وجود میں آ گئیں  اور جلیل القدر عالم جناب حسین خوانساری کو اسلامی القاب کی بجائے عقل حادی عشر کے لقب سے پکارا جاتا تھا اور علوم اہل بیت علیہم السلام کے ظاہر ہونے کی انتہائی حد وہی تھی کہ جسے محقق داماد فلسفی اصطلاحات کے ضمن میں بیان کرتے تھے ۔ المختصر یہ کہ زبان اہل  بیت علیہم السلام اور ان کی احادیث غربت کا شکار ہو چکی تھیں اور پھر خداوند متعال کے اذن سے علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ جیسی شخصیت رونما ہوئی کہ جس نے حدیث کو دوبارہ اس طرح سے زندہ کر دیا کہ پھر اہل بیت علیہم السلام کی احادیث پر نہ صرف مدارس اور علماء کی محافل میں توجہ کی جاتی تھی بلکہ ایران کے شہروں میں کتاب خوانی میں دلچسپی رکھنے والا کوئی ایسا گھر نہیں تھا کہ جس  میں اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کی احادیث کسی نہ کسی صورت میں بیان  نہیں ہوا کرتی تھیں ۔

اصفہان کی تمام خانقاہیں بند ہو گئیں ، صوفیانہ افکار کا خاتمہ ہو گیا ، قرآن و احادیث کے ظواہر سے حدیث و استدلال اور ائمۂ معصومین علیہم السلام کی زبان ؛ علماء اور مدارس کی زبان بن گئی ۔ کسی شک و شبہ کے بغیر یہ کہنا چاہئے کہ : اس زمانے میں علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ کا ظہور ؛ ائمہ علیہم السلام اور ان کے اصحاب جیسے زرارة بن أعین‌، محمّد بن مسلم اور صاحبان اصول کے زمانے میں تشیع کی باگشت کا موجب بنی ۔

میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ اس سے سابقہ زمانہ ؛ ائمہ علیہم السلام کے زمانے کی مانند نہیں تھا ، لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ ان کے زمانے کی مانند ہی تھا ، کیونکہ اسلامی اصطلاحات اور الفاظ کم و بیش تبدیل ہو چکے تھے اور درس و بحث اور تألیف و تصنیف میں کتاب و سنت اور اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کو کما حقہ محور قرار نہیں دیا جاتا تھا ۔

جیسا بھی تھا اور جس طرح بھی تھا ؛ لیکن ظاہری طور پر اگر علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کا وجود ظاہر نہ ہوتا تو مدارس اپنی اسی حالت میں آگے بڑھتے رہتے اور پھر ارسطوئی شریعت ، ابن سینائی و صدرائی اور ابن عربی کا اسلام استوار  ہوتا ۔ اور پھر خدا ہی جانتا ہے کہ آیات و احادیث کی توجیہ و تأویل کا باب اور خاص بیان سے انہیں حمل کرنے کا سلسلہ کہاں تک پھیل جاتا !

یہ علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ ہی تھے ؛ جنہوں نے مدارس اور حوزات کو دین اور تشیع کے اصل معارف کی طرف واپس پلٹایا اور قرآن و سنت کو تمام دوسرے مکاتب پر فوقیت دی ؛ شکر الله سعیه و جزاه الله عن هذا الدّین و الکتاب و السّنة خیر جزاء المحسنین۔

*  تمام علوم و معارف حقہ کا سرچشمہ

آج بھی شیعہ علمی سماج میں کتاب و سنت کو محور قرار دینے میں کمی کا خطرہ فروغ پا رہا ہے ۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کتاب اور سنت میں ہر وہ چیز بیان ہوئی ہے کہ جس کا اعتقادی ، ماوراء طبیعت اور عالم مادہ میں بیان ہونا لازم تھا اور ہمیں دوسرے مکاتب کے سامنے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اور در حقیقت سب کی ہدایت اور سب کو حقائق اور عالم غیب کی طرف دعوت دینے کے لئے یہ کتاب و سنت ہی کافی ہے ، علوم حقہ کا حصول صرف اور صرف اہل بیت وحی و رسالت علیہم السلام کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ حضرت امام باقر علیہ السلام نے سلمہ بن کہیل اور حکم بن عتیبہ سے فرمایا : «شَرِّقا وَ غَرِّبا لَن تَجِدا عِلماً صَحیحاً إلّا شَیئاً یَخرُجُ مِن عِندِنا أهلَ البَیتِ»(5)

تمام علوم انہیں کے پاس ہیں ۔ ہماری اور تمام امت اور سب لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی طرف رجوع کریں اور الٰہی مسائل میں ان کے علاوہ کسی کی طرف بھی رجوع کرنے کے تمام راستے غیر مطمئن ، گمراہی کے ضامن اور پرخطر ہیں ؛ چاہے وہ ان مسائل میں مشارب اور مسالک کا اختلاف رکھنے والے فلاسفہ ہوں اور چاہے وہ اشراق و شہود اور عرفان کے دعویدار ہوں ۔عقائد اور عالم غیب سے مربوط مسائل میں قول فصل فقط کتاب اور معتبر حدیث ہے ۔ قرآن کریم اور احادیث کے علاوہ بیان ہونے والے تمام مسائل میں غور و فکر کرنے کے لحاظ سے کوئی مکلف نہیں ہے اور نہ ہی وہ  کسی مطمئن جگہ تک منتہی ہو سکتا ہے اور نہ ہی یہ سیر الی اللہ کے لئے مفید ہے ۔

آنـچـه نـه از شـرع بر آرد علم * ور منم آن حرف، در آن کش قلم

اس بناء پر ہمیں یہ چاہئے کہ ہم عقیدتی معارف ، اخلاقی امور ، حیاتی ، انفرادی اور اجتمائی نظامات میں صرف کتاب و حدیث کو ہی محور قرار دیں ۔

*  اشخاص کے علمی مقام کا معیار

حقیقی علوم ( جن کا مجموعہ اسلامی و دینی علوم ہین) میں افراد کا علمی مقام و مرتبہ جاننے کے لئے ائمہ علیہم السلام سے ان کی روایت اور ان کی احادیث و علوم سے آگاہی کے بارے میں جانیں ۔ اس بارے میں فرمایا گیا ہے : «إعرِفُوا مَنَازِلَ شِیعَتِنا عَلی قَدرِ رِوَایَتِهِم عَنَّا وَ فَهمِهِم مِنَّا»۔(6) ہمارے دوستوں ، محبوں اور پیروکاروں  کے مقام و منزلت کو اس طرح سے پہچانیں کہ وہ ہماری روایات اور ہمیں کس قدر جانتے ہیں ۔

* اہل بیت علیہم ‌السلام کے کلام کا بے نظیر حسن

یہ اہل بیت علیہم السلام کے کلام کا حسن اور کشش ہے کہ اگر لوگ اس سے آشنا اور آگاہ  ہو جائیں تو اس کے گرویدہ بن جائیں اور ان کی پیروی اور متابعت کریں ۔

البتہ کلام کی فصاحت و بلاغت (یعنی کلام تعقید ، سنگین و اجنبی اور اذہان سے غیر مأنوس کلمات سے دور ہو ، آسان و سلیس ہو اور حال کے تقاضوں کے مطابق کہا جائے ) ایک امتیاز ہے کہ ان ہستیوں کا کلام اس صفت سے آراستہ ہے اور بالخصوص مختلف مناسبات اور اہم موقعوں پر دیئے گئے خطبات اس لحاظ سے بے نظیر و  بے مثال ہیں ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مبارک فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی بے نظیر تھی ، آپ نے فرمایا :«أنَا أفصَحُ مَن نَطَقَ بِالضَّاد بَیدَ أنّی مِن قُرَیش»(7)؛ اور اسی طرح امیر المؤمنین علی علیه ‌السّلام ، حضرت فاطمۂ زہراء علیہا السّلام ، حضرت امامین ہمامین حسنین علیہما السلام ، تمام ائمه اطہار علیہم ‌السّلام اور اس خاندازن اطہر  علیہم السلام کی خواتین مکرّمه ، جیسے حضرت زینب علیہا السّلام کلام کی فصاحت و بلاغت میں پہلے رتبے پر فائز ہیں ۔ پہلا رتبہ انہی ہستیوں سے مخصوص ہے ، جیسا کہ امیر المؤمنین علی علیہ ‌السّلام اس کلام میں فصاحت پر اپنی فوقیت کو یوں بیان فرمایا ہے : «وَ إِنَّا لَأُمَرَاءُ الْكَلَامِ وَ فِینَا تَنَشَّبَتْ عُرُوقُهُ وَ عَلَیْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُونُهُ»(8) ہم کلام کے فرمانروا ہیں ، یعنی کلام پر حاکم اور مسلّط ہیں (کچھ لوگوں کے برعکس کہ جن پر کلام حاکم و مسلّط ہے ) کلام کی زمام ہمارے ہاتھوں میں ہے ، اور جیسا ہم چاہتے ہیں ، شائستہ طور پر اس کی بنیادیوں اور شاخوں کی رہبری کرتے ہیں ۔

راویوں کی حفاظت کی  برکت اور احادیث کو محفوظ کرنے کے ذریعہ اس خاندان عصت و طہارت (علیہم السلام ) سے سینکڑوں خطبات ، ہزاروں کلمات قصار و مواعظ بطور یادگار محفوظ ہیں ۔ یہ سب کتاب خدا (یعنی قرآن) کے بعد فصاحت کی اوج پر ہیں ، ان کا واضح و آشکار نمونہ نہج البلاغہ اور مولا امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا کلام ہے اور یقیناً یہ حق تھا کہ آپ کے کلام کی توصیف کے بارے میں یہ کہا جائے کہ : «کَلامُهُ دُونَ کَلامِ الخَالِقِ وَ فَوْقَ کَلامِ الْمَخْلُوقینَ»(9) اپنے زمانے کے مایہ ناز اور بزرگ فصحا آپ کے کلام کے سامنے خاضع و خاشع ہوئے اور انہوں  نے آپ  کے کلام کی عظمت کا اقرار و اظہار کیا ۔ اسی طرح صحیفۂ سجادیہ بھی انہی صفات کی حامل ہے کہ جسے انجیل اہل  بیت علیہم السلام اور زبور آل محمد علیہم السلام کہا جاتا ہے ۔

قرآن کریم ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے کلام کا حسن اور لفظی و ادبی کشش بہت اہم ہے ( کہ جس کی بدولت) ہر زمانے میں سخن شناس افراد ہمیشہ سے اس کی طرف ملائل ہوتے رہے ہیں اور مائل ہوتے رہیں گے ، لیکن ظاہری طور  پر امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کا اس حدیث «فَإنَّ النَّاسَ لَو عَلِمُوا مَحَاسِنَ کَلامِنا لَاتَّبَعُونَا» میں یہ فرمانا کہ اگر لوگ ہمارے کلام کے حسن کو جان لیں تو وہ ہماری پیری و اتباع کرنے لگیں ، یہ ان ہستیوں کے کلام کے مضامین اور معانی کے حسن پر مبنی ہے ؛ کیونکہ جو چیز لوگوں کی پیروی کرنے اور ان کے کلام پر عمل کرنے کا باعث ہے ؛ وہ ان ہستیوں کے حیات بخش کلام کے پیغامات ہیں ۔

*  پند و نصیحت اور ہدایت کی ایک دنیا

احادیث شریفہ ؛ حکمت ، وعظ و نصیحت اور علمی و عملی ہدایات و ارشادات سے بھری ہوئیں ہیں کہ جو سماج کے لئے دنیا و آخرت کی سعادت ، جسم و روح کی صلاح اور انفرادی و اجتماعی فلاح کی ضامن ہیں ۔ ان کے کچھ نمونوں کا تحف العقول، غرر الحکم، مکارم الأخلاق و نزهة النّاظر جیسی کتابوں میں مطالعہ کریں ۔

 ان میں سے بہت سی احادیث میں ایک مختصر جملے کے ضمن میں انسان کو اعلیٰ ترین  حکمتوں اور دستور العمل سے نوازا گیا ہے ۔

ان احادیث سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ بزرگ ہستیاں انسان کی خیر و سعادت کی بنیاد کے حقیقی معمار اور انسانی سماج کی ارواح کے حقیقی طبیب ہیں ؛ ان کی تمام تر ہدایات اور رہنمائی کو عقل سلیم قبول کرتی ہے اور یہ سب فطرت کے عین مطابق ہیں ۔

اگر یہ تعلیمات ، یہ کلام و سخن اور ہدایات انسان کی دسترس میں قرار پائیں اور اگر حقیقت و صداقت اور سعادت کی جستجو کرنے والے افراد اس سے آگاہ ہو جائیں تو وہ ان سب کو قبول کریں گے اور ان کی پیروی کریں گے ؛ کیونکہ ان میں فطرت کے تقاضوں کو بیان فرمایا گیا ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی پیاسا پانی تلاش کر رہا ہو ۔ انسانی فطرت بھی ان تعلیمات و ارشادات کی جستجو کرتی ہے ۔ ان تعلیمات و ارشادات کی حقانیت پر ان سے بہتر کوئی دلیل نہیں ہو سکتی ۔

یوســف کنعــانیم روی چــو ماهم گواست
هیــچ کـس از آفتاب، خطّ گـواهی نخواست
ســرو بلنــدم تو را راســت نشــانی دهم
خـوب‌تـر از قـد سـرو چیست نشانی راسـت
ای گـل گـل‌زارها! چیـسـت نشــان شــمـا
بوی که در مغزهاست، رنگ که در چشمهاست

* راوی اور عابد کا مقام و مرتبہ

اسی وجہ سے اس روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام؛ معصومین علیہم السلام کے فرمودات و ارشادات کو یاد کرنے ، ان کی تعلیم حاصل کرنے اور لوگوں کو تعلیم دینے کے عمل کو اپنے امر کا احیاء سمجھتے ہیں اور یہ ایسا عمل ہے جو حافظان احادیث شریفہ اور اہل بیت علیہم السلام کے فرامین کو روایت کرنے والے (راوی) انجام دیتے ہیں اور یہ عمل بہت زیادہ فضیلت اور اجر کا حامل ہے ، یہاں تک کہ ائمہ علیہم السلام کی حدیث کو روایت کرنے والا ایک شخص ہزار عابدوں سے افضل اور بالاتر ہے ۔

ان حقائق و فضائل پر ایمان کی بناء پر ماضی میں شیعوں کے درمیان احادیث کو روایت کرنے ،نقل کرنے ، سننے اور محفوظ کرنے کی محافل کا انعقاد کیا جاتا تھا اور پھر دوسری ، تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں قم جیسا شہر محدثین کا مرکز بن جاتا ہے ۔ مختلف اصناف اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد روایتِ حدیث کے اس حلقہ میں حاضر ہوا کرتے تھے اور احادیث کی قرائت یا شیوخ سے سماعت کے ذریعے مسند یاد کرتے تھے ۔

امّید ہے کہ موجودہ نسل اور علم و دانش و معرفت کو دوست رکھنے والے  تمام حضرات ، اہل بیت علیہم السلام کے امر کے احیاء  اور ان کے انسان ساز مکتب کی تبلیغ و ترویج اور نشر و اشاعت  سے حضرت علی بن موسی الرضا علیہما السلام کی دعا میں شامل ہوں گے ۔

حوالہ جات :

۱۔ عیون اخبار الرّضا (علیه‌السّلام)، جلد1، صفحه240، باب28، حدیث69 ۔

یہ بات مخفی نہ رہے کہ ہم نے عیون اخبار الرضا علیہ السلام  کے جس نسخہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اگرچہ اس میں حدیث کی سند اور حضرت امام رضا علیہ السلام کی طرف اس کی استناد و اسناد صریحاً ذکر نہیں ہوئی ، لیکن قطعی قرائن اور منجملہ عبد السلام بن صالح کا اس حدیث کے روای ہونے سے یہ مسلم ہو جاتا ہے کہ یہ حدیث حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ بحارالأنوار ؛ جلد2 ، صفحه30 کی روایت کی رو سے اس کی سند کچھ یوں ہے:قال سمعت أبا الحسن علیّ بن موسی الرضا (علیهما‌السّلام) یقول... ۔ لہذا اس بناء پر یہ توہم رفع ہو جاتا ہے ۔

۲۔ علّامه مجلسی( علیہ الرحمۃ) ، بحار الأنوار؛ جلد2، صفحه248؛ حدیث22-19  ۔

۳ ۔ بخاری ، صحیح ، جلد5، صفحات 138- 137 ؛ مسلم نیشابوری ، صحیح ، جلد5 ، صفحه76 ؛  ہمارے لئے کتاب خدا ہی کافی ہے ۔

۴۔كتاب «اسماء الذین رووا عن الصادق» ، تألیف ابو العبّاس احمد بن محمّد كوفى ، المعروف به ابن عقده۔

۵۔ مشرق و مغرب میں چلے جائیں ، لیکن تمہیں کہیں بھی صحیح علم نہیں ملے گا مگر یہ کہ وہ ہم اہل بیت علیہم السلام سے صادر ہوا ہو ۔علّامه مجلسی(علیہ الرحمۃ )، بحار الأنوار ؛ جلد2، صفحه92۔

۶۔ علّامه مجلسی (علیہ الرحمۃ ) ، بحار الأنوار؛ جلد2، صفحه148۔

۷۔سید نعمت‌الله جزائرى ، نور البراهین، سورۂ دخان کی چوتھی  آیت کی تفسیر کے بیان کے ذیل میں ۔

۸۔ نهج البلاغة ، صبحی صالح ، خطبه 233۔

۹۔ شرح نهج البلاغة ابن أبی‌الحدید ، جلد ‏1، صفحه 24۔

 

 

 

Monday / 20 July / 2020