پنجشنبه: 1403/01/9
نسخه مناسب چاپSend by email
امام‌حسين علیہ السلام احادیث کی نگاہ میں  
آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’عظمت امام حسین علیہ السلام‘‘ سے اقتباس

 

1ـ حسین علیہ السلام ؛ جوانان جنت کے سردار

احمد بن حنبل نے مسند میں ، بیہقی نے السنن‌الکبری میں ، طبرانی نے المعجم‌الاوسط و المعجم‌الکبیر میں ، ابن‌ماجه نے سنن میں ، سیوطی نے الجامع‌الصّغیر ، الحاوی اور  الخصائص‌الكبری میں ، ترمذی نے سنن میں ، حاكم نیشابوری نے المستدرك میں ، ابن‌حجرهیتمی نے الصّواعق‌المحرقه میں ، ابن‌عساكر نے تاریخ مدینۃ الدمشق میں ، ابن‌حجر عسقلانی نے الاصابہ میں ،  ابن‌عبدالبر نے الاستیعاب میں ،  بغوی نے مصابیح السنہ میں ، ابن‌اثیر نے  اسد  الغابہ  میں ، حموینی شافعی نے  فرائدالسمطین میں ، ابوسعید نے شرف‌النّبوۃ میں ، محبّ طبری نے ذخائرالعقبیٰ میں ، ابن‌سمّان نے الموافقه میں ، نسائی نے خصائص ‌امیرالمؤمنین میں ، ابونعیم نے حلیةالاولیاء میں ،  خوارزمی نے مقتل الحسین علیہ السلام میں ،  ابن‌عدی  نے الکامل میں ، مناوی نے کنوز الحقائق میں ، اور ان کے علاوہ دوسرے علماء نے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :

«حسن اور حسین دونوں ؛ جوانان جنت کے سردار ہیں» ۔

یہ احادیث متعدد سند کے ساتھ کئی اصحاب جیسے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ، ابن‌مسعود، حذیفه، جابر، ابوبكر، عمر، عبداللّه بن عمر، قرّه، مالك بن ‌حویرث، بریده، ابو‌سعید خدری، ابوهریره، اسامه، براء اور  اَنَس سے روایت ہوئی ہے  ، اور ان سب سے مجموعی طور پر یہ استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطور مکرر حسن و حسین علیہما السلام کو  اس صفت کے ذریعہ متعارف  فرمایا  ، اور آپ نے  یہ صفت ان الفاظ میں  بیان فرمائی :

«اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ»؛[1]

 

مسلمانوں کے درمیان رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث متواتر اور مسلم صورت میں مشہور و معروف ہے ۔

اکثر احادیث کا متن یہ ہے کہ «اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ» اور کچھ دوسرے متون کا ترجمہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا : «آسمان کے ایک ایسے فرشتے نے میری زیارت کے لئے خدا سے اجازت طلب کی کہ جس نے میری زیارت نہیں کی تھی ، پس اس نے خبر دی اور مجھے خوشخبری سنائی کہ میری بیٹی فاطمہ میری امت کی عورتوں کی سردار ہیں ، اور حسن و حسین دونوں ؛ جوانان جنت کے سردار ہیں »:

«وَ إِنَّ حَسَناً وَحُسَیْناً سَیِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ».

بعض روایات میں یہ جملہ میں مزکور ہے کہ آپ نے فرمایا :

«وَأَبُو هُمَا خَیْرٌ مِنْهُمَا».[2]

« اور ان (امام حسن اور امام حسین علیہما السلام) کے پدر ان سے بہتر ہیں».

نیز اس کے بعض طرق اور اسناد میں اہل بیت علیہم السلام کے کچھ دیگر فضائل بھی بیان ہوئے ہیں : [3]

2ـ حسین علیہ السلام ؛ محبوب پیغمبر

«حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ». [4]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حسن و حسین علیہ السلام سے بے حد محبت کرتے تھے  اور آپ ان سے انتہائی شفقت اور چاہت کا ظاہر کرتے تھے ۔ 

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت امام حسین علیہ السلام سے بہت محبت کرتے تھے اورآنحضرت کی آپ  سے غیر  معمولی محبت تھی ۔روایات اور تواریخ کا اس بات پر  اتفاق ہے  کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام لوگوں اور اپنے قریبی رشتہ داروں کی بنسبت حضرت علی علیہ السلام،حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام  اور حضرت امام حسن و حسین علیہما السلام سے زیادہ محبت و مودّت کا اظہار فرماتے تھے ۔ ان کی محبت ایک باپ کی اپنی اولاد سے عام محبت کی طرح نہیں تھی  بلکہ اس کی بنیاد میں روحانی وابستگی پائی جاتی ہے جو ایک اتحاد ،معنوی اتصال اور مکمل فکری تکامل کی نشانی تھی۔ لہذا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

«إِنَّهُمْ مِنِّی وَأَنَا مِنْهُمْ»؛[5]

«وہ مجھ سے ہیں ، اور میں ان سے ہوں».

یا جیسا کہ زید بن اَرْقَمْ کی حدیث میں وارد ہوا ہے :

«أَنَا سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ»؛[6]

« جس کی تم سے صلح ہے  ،اس سے میری صلح ہے اور جس کی تم سے جنگ ہے ،اس سے میری بھی جنگ ہے»۔

و تعبیرات دیگر در ترجمه و تفسیر این رابطه و محبّت گزاف و مبالغه نیست؛ و عین واقع و حقیقت است.

اس محبت اور رابطے کے ترجمہ و تفسیر  کی دوسری تعبیرات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے ، بلکہ یہ بالکل حقیقت اور واقعیت ہے ۔

روح کے حقیقی و واقعی رابطہ و اتصال  کے لئےہم فکر ہونا اور خالص وابستگی ضروری ہے  جس کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جملہ سے وضاحت فرمائی ہے: «أَنَا سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ»اور یہ جملہ اس نکتہ پر واضح دلالت کرتا ہے کہ ان کا طرز تفکر،روش اور طریقہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تفکر،روش اور سلوک کے ساتھ یکساں ہے۔جس میں کوئی فرق نہیں ہے اور کردار و رفتار اور جنگ و صلح کے لحاظ سےیہ ذوات مقدسہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کردار کی مانند ہیں۔

جب ہم  اس روایت کا مطالعہ کرتے ہیں ، اور امام حسین علیہ السلام سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت و الفت سے آگاہ ہوتے ہیں تو ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ان الفاظ و کلمات کے کہنے والے خود  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں، اور آپ وہ ذات ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں حقیقت سے عاری  باتوں ، بیہودہ گوئی اوت بیجا مدح و ثنا کا مقابلہ کیا  اور آپ کے کلمات و فرامین انسان کے لئے ہمیشہ حجت،قانون اور شریعت ہیں ۔آپ کے تمام فرمودات حقیقت کے  ترجمان ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جناب فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ اور بھی بیٹیاں تھیں  اور علی علیہ السلام کے علاوہ  اور بھی چچا زاد بھائی  اور نزدیکی رشتہ دار تھے  لیکن اس کے با وجود صرف فاطمہ علیہا السلام ،علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہم السلام سے ہی یہ سب اظہار محبت کیوں مخصوص تھا؟ کیوں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سب لوگوں اور اپنے اصحاب میں سے صرف ان ہستیوں کا انتخاب کیا؟

کیونکہ یہ چار ہستیاں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روح ، صفات  اور اخلاق و کمالات کی نمائندہ تھیں۔

ایک مؤمن مسلمان کے لئے امام حسین علیہ السلام کی عظمت کا بہترین معرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یہی فرمودات ہیں ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت و دوستی کو بیان کرنے والی احادیث میں سے ایک یعلی بن مرّہ[7] کی حدیث ہے ۔ یعلی بن مرّہ روایت کرتے ہیں: ایک دن پیغمبرؐ کے اصحاب کے ہمراہ کسی دعوت میں شریک ہونے کے لئے روانہ ہوئے  کہ اچانک حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جو کوچہ میں کھیل رہے تھے ،پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھ چلنے والوں کو روک کر اپنی باہیں پھیلائیں ، حسین علیہ السلام ادھر ادھر بھاگ رہے تھے  اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں ہنسا رہے تھے اور پھر آپ نے انہیں پکڑ لیا اور اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ ان کے سر کے نیچے رکھا اور  انہیں چوما  اور پھر فرمایا:

«حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْناً، حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ»؛

« حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ،خدا اس سے محبت کرے گا  جو حسین سے محبت کرے ،حسین اسباط میں سے سبط ہے»۔

نیز اسی حدیث مبارکہ کو  بخاری ،[8] ترمذی،[9] ابن‌ماجه[10] و حاكم[11] نے ان الفاظ میں روایت کیا ہے :

«حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْهُ أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْناً، اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سِبْطَانِ مِنَ الْأَسْباطِ».

شرباصی ’’قاموس‘‘ میں یہ  حدیث  «حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْباطِ: اُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ»نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:’’سبط ‘‘ کے معنی جماعت و قبیلہ کے ہیں اور شاید حدیث کے معنی یہ ہوں کہ حسین علیہ السلام مقام کی رفعت و بلندی کے اعتبار سے ایک امت کا مرتبہ رکھتے ہیں یا یہ کہ ان کے عمل کا اجر و ثواب ایک امت کے اجر و ثواب کے برابر ہے ۔ [12]

مسلم ، ابن ‌عبدالبرّ اور شبلنجی نے ابوہریره سے روایت کیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حسن و حسین (علیہما السلام) کے حق میں فرمایا ہے :

«اَللَّهُمَّ إِنِّی اُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُمَا»؛[13]

«خدایا ! بیشک میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ، پس (تو بھی) ان سے محبت کر ، اور ان سے محبت کرنے والوں سے محبت کر» ۔

بغوی، ترمذی،[14] ابن‌اثیر،[15] نسائی،[16] ابن‌حجر عسقلانی،[17] و سید احمد زینی[18] نے اُسامه سے روایت كیا ہے کہ انہوں نے کہا : ایک رات میں اپنی حاجت بیان کرنے کے لئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر گیا ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر سے باہر تشریف لائے ، جب کہ آپ نے اپنی عباء میں کوئی چیز لپٹی ہوئی تھی ، جب میں نے اپنی حاجت بیان کر لی تو میں نے آنحضرت سے پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے جسے آپ نے اپنی عباء سے لپیٹا ہوا ہے ؟ اپنی نے عباء کا دامن ہٹایا تو میں نے حسن و حسین (علیہما السلام) کو دیکھا ؛ آپ  نے فرمایا ؛

«هَذَانِ ابْنَایَ وَاِبْنَا ابْنَتِی اَللَّهُمَّ إِنِّی اُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُمَا»؛

«یہ دونوں میرے بیٹے ہیں ، اور میرے بیٹی کے بیٹے ہیں ۔ خدایا بیشک میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ، پس تو بھی ان سے محبت کر ، اور ان سے محبت کرنے والوں سے محبت کر» ۔

ترمذی نے براء سے نقل كیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :

«اَللَّهُمَّ إِنِّی اُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا».[19]

«خدایا ! بیشک میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ، پس تو بھی ان سے محبت کر» ۔ [20]

ترمذی[21] اور بغوی[22] نے انس سے روایت كیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ آپ اہل بیت میں کس سے زیادہ محبت کرتے ہیں :

آپ نے فرمایا : «حسن اور حسین سے» ۔

سیوطی اور مناوی نے نقل كیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

«أَحَبُّ أَهْلِ بَیْتی إِلَیَّ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ».[23]

نیز ترمذی اور بغوی نے انس سے روایت کیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فاطمہ علیہا السلام سے فرمایا :

«اُدْعِی لِی إِبْنَیَّ فَیَشُمُّهُمَا وَیَضُمُّهُمَا إِلَیْهِ»؛[24]

«میرے بیٹوں کو بلاؤ تا کہ وہ میرے پاس آئیں ، پس آپ ان دونوں کو سونگھتے تھے اور اپنے سینے سے لگا تے تھے » ۔

احمد بن حنبل نے روایت كیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

«اَللَّهُمَّ إِنِّی أُحِبُّ حُسَیْناً فَأَحِبَّهُ، وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُ»؛[25]

«خدایا ! بیشک میں حسین سے محبت کرتا ہوں ، پس جو کوئی بھی اس سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت کر» ۔

ابن ابی شیبہ نے نے بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت كیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

«اَللَّهُمَّ إِنّی اُحِبُّهُما فَأَحِبَّهُما وَأَبْغِضْ مَنْ یُبْغِضُهُما»؛[26]

«خدایا ! بیشک میں حسن و حسین سے محبت کرتا ہوں ، پس ان سے محبت کر ، اور ان سے دشمنی رکھنے والوں سے دشمنی رکھ » ۔

 

 


[1]. «حسن و حسین  دونوں  جوانان جنت کے سردار ہیں ».

.[2] ابن‌حجر هیتمی، الصّواعق‌المحرقه، ص191.

[3]. ابن ‌ماجه قزوینی، سنن، ج1، ص44؛ ترمذی، سنن، ج5، ص321، 326؛ نسائی، خصائص امیرالمؤمنین، ص117 ـ 118، 123 ـ 124؛ ابونعیم اصفهانی، حلیةالاولیاء، ج5، ص71؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ج1، ص391؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین علیہ السلام ، ج1، ص92، فصل 6؛ بغوی، مصابیح‌السنه، ج2، ص459؛ ابن‌طلحه شافعی، مطالب‌السّؤول، ص335، 376 ـ 378؛  طبری، ذخائرالعقبی، ص129؛ ابو‌الفداء، المختصر، ج‌1، ص284 ؛ حموینی، فرائدالسّمطین، ج1، ص35؛  زرندی، نظم دررالسّمطین، ص205؛  سیوطی، الجامع‌الصّغیر، ج1، ص20؛ همو، الخصائص‌الكبری، ج‌2، ص395؛ همو، الحاوی، ج2، ص253؛ ابن‌حجر عسقلانی، الاصابه، ج6، ص252؛ ابن‌حجر هیتمی، الصواعق‌المحرقه، ص137، 187، 191.

.[4] احمد بن حنبل، مسند، ج4، ص172؛ ابن‌ماجه قزوینی، سنن، ج1، ص51؛ ترمذی، سنن، ج5، ص324؛ مفید، الارشاد، ج2، ص127؛ ابن‌بطریق، عمدة عیون صحاح‌الاخبار، ص406؛ طبری، ذخائرالعقبی، ص133. «حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ».

[5]. خوارزمی، المناقب، ص63؛ رزندی، نظم دررالسّمطین، ص100؛ متّقی هندی، کنزالعمّال، ج12، ص101؛ قندوزی، ینابیع‌المودة، ج1، ص322؛ ج2، ص334، 443.

[6]. ابن‌ماجه قزوینی، سنن، ج1، ص52؛ ترمذی، سنن، ج5، ص360 (باب ما جاء فی فضل فاطمه).

[7]  ۔ ابن‌ماجه قزوینی، سنن، ج1، ص51؛ ترمذی، سنن، ج5، ص324؛ بغوی، مصابیح‌السنه، ج2، ص459؛ ابن‌طلحه شافعی، مطالب‌السّؤول، ص377؛ ابن‌اثیر جزری، اسدالغابه، ج2، ص19؛ ج5، ص130 ۔

.[8] بخاری، الادب‌المفرد، ص85؛ همو، التاریخ الکبیر، ج8، ص414 ـ 415.

[9]. ترمذی، سنن، ج5، ص324.

[10]. ابن‌ماجه قزوینی، سنن، ج1، ص‌51.

[11]. حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص177.

[12]. شرباصی، حفیدةالرسول، ص40.

[13]. مسلم نیشابوری، صحیح، ج7، ص129؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ج1، ص391؛ شبلنجی، نورالابصار، ص268.

[14]. ترمذی، سنن، ج5، ص322.

[15]. ابن‌اثیر جزری، اسدالغابه، ج2، ص11.

[16] . نسائی، خصائص امیرالمؤمنین علیہ السلام، ص123.

[17]. ابن‌حجر عسقلانی، الاصابه، ج2، ص61.

[18]. زینی دحلان، السیرة‌النبویه، ج3، ص313.

[19] . ترمذی، سنن، ج5، ص322.

[20] . ترمذی، سنن، ج5، ص322.

.[21] ترمذی، سنن، ج5، ص323.

[22]. بغوی، مصابیح‌السنه، ج2، ص459.

[23]. سیوطی، الجامع‌الصّغیر، ج1، ص37. «میرے اہل بیت میں میرے نزدیک سب سے محبوب حسن و حسین هیں».

[24]. ترمذی، سنن، ج5، ص323.

[25]. مناوی، كنوزالحقائق، ج1، ص44.

[26]. ابن‌ابی‌شیبه کوفی، المصّنف، ج7، ص511 ـ 513؛ مناوی، كنوزالحقائق، ج1، ص44؛ قندوزی، ینابیع‌الموده، ج2، ص71.

پنجشنبه / 25 شهريور / 1400