ابو سہل كہتے ہیں كہ خادم نے كہا : " میں حجرے میں پہنچا تو دیكھا ایك بچہ اپنا سرسجدہ میں ركھے ہوئے ہے اور اپنے انگلی سے آسمان كی جانب اٹھائے ہوئے ہے ۔ میں نے سلام عرض كی اور آنحضرت نے جواب سلام دیتے ہوئے اپنی نماز و سجدے كو مختصر كیا ۔جب نماز تمام ہو گئی تو میں نے عرض كیا امام عسكری علیہ السلام آپ كو بلا رہے ہیں ، اسی وقت آپ كی والدہ گرامی آئیں اور آنحضرت كو لے كر امام عسكری(ع) كے پاس پہنچیں ۔
گھر خاندان اور تربیت كا ماحول انسان كے جسم و فكر دونوں كی تربیت اور ترقی میں خاص اثر ركھتا ہے اور انسان كے اندر ثبات و پایداری پیدا كرتا ہے ۔
جناب خدیجہ كا خاندان بھی ایسا ہی ایك خاندان تھا كہ باپ ماں اور اپنے اجداد كی جانب سے آپ كا خاندان جزیرۃ العرب كے اصلی باشندوں میں سے تھا اور كرامت و سیادت و شرافت میں معروف تھا ۔
بہت سے اہم اور قابل توجہ مسائل میں سے ایك مسئلہ بدترین حالات اور نامناسب شرائط میں پیغمبر اكرم كی كامیابی كا ہے جو متفكرین كے درمیان مورد بحث ہے اور بہت سے لوگوں نے اس پر اظہار تعجب كیا ہے ۔
چونكہ پیغمبر اكرم كی تبلیغ الٰہی تبلیغ تھی اور ان كی پشت پناہ پروردگار اكرم كی ذات لا یزال تھی اس لئے ان كی كامیابی اور تبلیغ دین كی ترقی كا راز لوگوں سے ساتھ مدارا اور نرم خوئی كے ساتھ پیش آنا تھا ۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے كہ خداوند عالم نے پہلے ہی پیغمبر اكرم (ص) كو اس بات كا حكم دیا تھا اور انھیں ان نامناسب شرائط كے لئے تیار كر ركھا تھا ۔
خود پیغمبر اكرم (ص) فرماتے ہیں :
پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي كاميابي كا راز
امام زمانہ(عج) كا نام سن كر كھڑے ہونا
س ۔ امام عصر(عج) كا مخصوص نام سن كر كھڑا ہونا كیسا ہے ؟
ج ۔ واجب نہیں ہے لیكن بعض روایات كی بنا پر جو یہ طریقہ ہے یہ آنحضرت كی تعظیم ہے ، اور بعض روایات كی بنیاد پر امام كے نام پر سر پر ہاتھ ركھنا امام رضا علیہ السلام كی سنت ہے لیكن جہاں پر امام كے نام پر كھڑا نہ ہونا امام كی بے احترامی سمجھا جائے ، وہاں كھڑا نہ ہونا جائز نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں منتخب الاثر جلد سوم كی روایت ۱۲۴۳ اور ۱۲۴۴ كی جانب مراجعہ كریں ۔
شیخ طوسی (رہ) كے مطابق امام محمد تقی علیہ السلام كی ولادت ۱۰ رجب سن ۱۵۹ ہجری میں مدینہ منورہ میں واقع ہوئی ، آپ كے والد امام رضا علیہ السلام اور والدہ جناب خیزران علیھا السلام ہیں ۔ ( موسوعۃ الامام الجواد علیہ السلام)
امام محمد تقي عليہ السلام غير شيعہ دانشوروں كي نطر ميں
ہشام كے حكم سے امام كو دربار میں داخل ہونے كی اجازت دی گئی ،حضرت دربار میں داخل ہوئے اور ہاتھوں سے اشارہ كرتے ہوئے فرمایا : السلام علیكم ،تمام درباریوں كو سلام كیا ۔
ہشام نے دیكھا كہ امام نے اسے خصوصی سلام نہیں كیا اور اس كی اجازت كے بغیر بیٹھ گئے ، اسے اور غصہ آیا اور كہنے لگا : ہمیشہ تمہارے خاندان كا ایك آدمی مسلمانوں كے درمیان اختلاف پیدا كرتا ہے اور لوگوں كو اپنی بیعت كی دعوت دیتا ہے اور خود كو امام سمجھتا ہے ، اس طرح اس نے امام كی سرزنش شروع كی ۔
تاریخی كتابوں كے مطالعہ سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے كہ امام رضا علیہ السلام كو مامون عباسی نے زہر دغا كے ذریعہ شہید كروایا اور یہ بات خود مامون كے دور حكومت میں مشہور تھی كہ امام رضا علیہ السلام كا قاتل مامون ہے اور مامون بھی خود كو بری ثابت كرنے كے لئے یہ شكوہ كیا كرتا تھا كہ لوگ بلا وجہ ہم كو امام كا قاتل سمجھتے ہیں ۔
امام حسین علیہ السلام كے با وفا اصحاب كی نیت ، ان كا خلوص اور كربلا میں ان كی قربانیاں ان كی عظمت و بزرگی كی علامت ہیں ۔ تمام اصحاب كو اس بات كا علم تھا كہ روز عاشور سب كو شہید ہو جانا ہے پھر بھی امام حسین علیہ السلام كے گرد پروانہ وار ڈٹے رہے ۔ خود امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے لے كر كربلا تك متعدد مرتبہ اصحاب كو ان كی شہادت كی خبر سنا دی تھی اور جن لوگوں كی نیت میں كھوٹ تھا وہ امام حسین علیہ السلام كا ساتھ چھوڑ كر چلے بھی گئے ۔ لیكن جن كے دلوں میں شمع ایمان روشن تھی انھوں نے امام حسین (ع) كا ساتھ نہ چھوڑا یہاں تك كی شب عاشور جب انصار حسینی نماز و عبادت و تلاوت قرآن میں مشغو
امام حسین علیہ السلام سماجی آداب اور دور و نزدیك والوں كے ساتھ حسن معاشرت میں عظیم المرتبت اور بے مثل تھے ۔ آپ كا نفس عفو و كرم كا مخزن تھا ۔
جمال الدین محمد زرندی حنفی مدنی نے روایت كی ہے كہ امام زین العابدین علیہ السلام اپنے والد گرامی امام حسین علیہ السلام سے نقل كرتے ہیں : اگر كوئی میرے اس كان میں ( اپنے داہنے كان كی طرف اشارہ كیا )مجھے برا بھلا كہے اور پھر دوسرے كان میں معافی طلب كر لے تو میں اس كی معافی قبول كر لوں گا ۔ چونكہ امیرالمومنین علیہ السلام نے میرے جد پیغمبر اكرم(ص) سے نقل كیا ہے كہ آپ نے فرمایا :