جمعه: 1403/02/14
Printer-friendly versionSend by email
امام حسن عليہ السلام كي دس اخلاقي خصلتيں

اخلاق سرچشمہ ہدایت ہے ، انسان كی مختصر زندگی اخلاقی تعلیمات كے سایہ میں ہی بہشت بریں بن سكتی ہے ، رشد و كمال كی اعلیٰ منزلوں كو پانے كے لئے انسان كو اخلاقی كمال كی منزلوں كو طے كرنا چاہئے ۔ 
قرآن ، احادیث اور سیرت معصومین اخلاق و معارف كا بہترین سرچشمہ ہیں ۔ 
ائمہ ہدیٰ علیہم السلام چونكہ گناہوں سے دور تھے اور معصوم تھے اس لئے وہ عالم انسانیت اور خاص كر اپنے چاہنے والوں كے لئے بہترین معلم اخلاق ہیں ۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كی ولادت با سعادت كے موقع پر ہم اس مقالہ میں امام حسن علیہ السلام كی دس بہترین خصلتوں كی جانب اشارہ كریں گے ۔ 
۱۔ عبادت 
امام صادق علیہ السلام آپ كی عبادتوں كے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنے زمانے كے سب سے بڑے عبادتگزار تھے ، كئی حج پیادہ انجام دئیے اور كبھی كبھی آپ نے پابرہنہ حج كیا ، ہمیشہ ذكر خداوند میں مشغول رہتے تھے اور جب بھی ایسی آیت سنتے جس میں " یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُو " كا خطاب ہوتا تو آواز دیتے " لَبَّیْكَ اللَّهُمَّ لَبَّیْك " خدایا ! تیری خدمت میں حاضر ہوں ۔ (بحارالانوار، ج/۴۳، ص/۳۳۱(
۲۔ خوف خدا

جب بھی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام وضو كرتے سارا بدن خوف خدا سے كانپنے لگتا اور چہرے كا رنگ زرد ہو جاتا اور جب آپ سے اس كا سبب پوچھا جاتا تو فرماتے تھے : خدا كا بندہ جب بھی اس كی بندگی كے لئے اس كی بارگاہ میں حاضر ہو تو اس كے خوف سے اس كا رنگ تبدیل ہو جانا چاہئے اور اس كا بدن ایسے ہی لرزنا چاہئے ۔ (مناقب ابن شہر آشوب، ج/۴، ص/۱۴(
۳۔ قرآن كی ہمنشینی
امام حسن علیہ السلام بہت ہی دلنشین آواز میں قرآن كی تلاوت فرماتے تھے ، رات كو سونے سے قبل سورہ كہف كی تلاوت كرتے تھے ، روایت میں ہے كہ پیغمبر(ص) كی زندگی میں ایك شخص مسجد میں آیا اور اس نے دریافت كیا كہ " شاھد و مشھود" (سورہ بروج،۳)كی تفسیر كیا ہے؟ ایك شخص نے جواب دیا : شاہد سے مراد جمعہ كا دن ہے اور مشہود عرفہ كا دن ہے ، اس نے دوسرے سے پوچھا تو اس نے كہا كہ شاہد سے مراد جمعہ كا دن اور مشہود سے مراد عید قربان كا دن ہے ۔ 
پھر سائل مسجد كے ایك گوشے میں بیٹھے ہوئے ایك خردسال كی طرف گیا اس نے جواب دیا : " أَمَّا الشَّاهِدُ فَمحمد(ص) وَ أَمَّا الْمَشْهُودُ فَیَوْمُ الْقِیَامَةِ أَمَا سَمِعْتَهُ سُبْحَانَهُ یَقُولُ یا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْناكَ شاهِداً وَ مُبَشِّراً وَ نَذِیراً " شاہد محمد(ص) ہیں اور مشہود سے مراد قیامت كا دن ہے ، كیا تم نے خداوند عالم كا یہ قول نہیں سنا كہ ،اے پیغمبر ہم نے آپ كو گواہ, بشارت دینے والا, عذاب الہٰی سے ڈرانے والا بناكر بھیجا ہے ۔(سورہ احزاب ،آیت/۴۵(
اسی طرح قیامت كے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے : " ذلِكَ یَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَ ذلِكَ یَوْمٌ مَشْهُود " وہ دن جس دن تمام لوگ جمع كئے جائیں گے اور وہ سب كی حاضری كا دن ہوگا ۔ (سورہ ہود،آیت/۱۰۳(
راوی كہتا ہے ہے كہ میں نے دریافت كیا كہ جس سے پہلے سوال كیا گیا وہ كون تھا معلوم ہوا وہ " ابن عباس" ہیں ، دوسرا كون تھا ؟ پتہ چلا كہ وہ ابن عمر تھے ، پھر پوچھا كہ وہ بچہ جس نے سب سے صحیح جواب دیا وہ كون تھا ؟ تو جواب ملا كہ وہ حسن بن علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے ( بحارالانوار ،ج/۴۳، ص/۳۴۵ (
۴۔ رحمدلی و مہربانی
خدا كے بندوں كے ساتھ رحمدلی اور مہربانی آپ كے بارزترین صفات میں سے تھا ، روایت ہے كہ ایك دن امام كی ایك كنیز ایك پھول لے كر آئی اور اسے امام كی خدمت میں پیش كیا ،آنحضرت نے پھول اس سے لیا اور فرمایا : " جاؤ تم آج سے آزاد ہو " راوی كہتا ہے میں نے تعجب سے پوچھا : فرزند رسول! اس كنیز نے صرف آپ كو ایك پھول ہدیہ كیا اور آپ نے اسے آزاد كر دیا امام نے جواب دیا : خداوند عالم نے ہمیں یہ حكم دیا ہے : " وَ إِذا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِأَحْسَنَ مِنْه " (سورہ نساء ،آیت/۸۶) اور جب تم لوگوں كو كوئی تحفہ(سلام) پیش كیا جائے تو اس سے بہتر یا كم سے كم ویسا ہی واپس كرو۔ پھر امام نے فرمایا : اس كی مہربانی كی جزا بھی اس كی آزادی تھی ۔ (مناقب ابن شہر آشوب ، ج/۴،ص/ ۱۸(
۵۔ عفو و بخشش
امام كی اس صفت كی وجہ سے بہت سے لوگ آپ پر ایمان لائے اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے چنانچہ ایك واقعہ ملتا ہے كہ آپ كے پڑوس میں ایك یہودی رہتا تھا، یہودی كے گھر كی دیوار میں شگاف ہوگیا اور اس كے گھر كی گندگی امام كے گھر میں آنے لگی ، یہودی كو اس بات كی خبر نہ تھی كہ ایك دن اس كی زوجہ كسی كام سے امام كے گھر آئی اور اس نے دیكھا كہ اس كی دیوار كا شگاف امام كے گھر كی گندگی كا باعث بنا ہوا ہے ، اس نے جاكر اپنے شوہر كو خبر دی ، وہ یہودی امام كی خدمت میں آیا اور اپنی لا پرواہی كے لئے معافی طلب كی اور امام نے اس سے كبھی كوئی شكایت نہیں كی اس كے لئے بہت شرمندہ ہوا ۔ 
امام نے فرمایا : " میں نے اپنے جد رسولخدا(ص) سے سنا ہے كہ اپنے پڑوسیوں كے ساتھ مہربانی كرو " یہودی نے جب امام كی اس خصلت كا مشاہدہ كیا تو اپنے گھر آیا اور اپنے بیوی بچوں كو لے كر امام كی خدمت میں پہنچا اور امام سے درخواست كی كہ اسے كلمہ پڑھائیں تاكہ وہ مسلمان ہو جائے ۔ (تحفۃ الواعظین ، ج/۲، ص/۱۰۶(
۶۔ خاكساری 
امام حسن علیہ السلام بھی اپنے جد رسول خدا (ص) كی طرح بغیر كسی تكبر كے زمین پر بیٹھتے اور فقراء كے ساتھ بیٹھ كر كھانا كھاتے ، ایك دن آپ كا گزر ایك ایسے مقام سے ہوا جہاں فقیر لوگ زمین پر بیٹھے ہوئے سوكھی روٹیاں كھا رہے تھے ، جب انھوں نے امام كو دیكھا تو آپ كو كھانے كی دعوت دی امام اپنی سواری سے اترے اور اس آیت كی تلاوت فرمائی : " إِنَّهُ لا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرین " اللہ تكبر كرنے والوں كو پسند نہیں كرتا(سورہ نحل ،آیت/۲۳) پھر ان كے ساتھ دسترخوان پر بیٹھے اور كھانا شروع كر دیا ۔ جب سب كھانا كھا كر دسترخوان سے اٹھے تو امام نے انھیں اپنے گھر پر دعوت دی اور ان كے لئے كھانے كا انتظام كیا اور سب كو لباس ہدیہ كیا ( بحارالانوار ، ج/۴۳، ص/۳۵۲(
۷۔ مہمان نوازی 
آپ بہت ہی مہمان نواز تھے خاص كر نادار و غریب لوگوں كو ہمیشہ اپنے دسترخوان پر بلاتے اور ان كے كھانے كا انتظام كرتے ، كبھی كبھی تو ایسے لوگوں كو دعوت دیتے جن كو پہچانتے بھی نہ تھے ۔ 
ایك مرتبہ آپ امام حسین(ع) اور عبداللہ بن جعفر كے ہمراہ حج پر نكلے راستے میں زاد راہ گم ہو گیا تو صحرا میں كسی ضعیفہ كے یہاں مہمان ہوئے اور اس نے آپ لوگوں كی خاطر داری كی ۔ ایك بار وہ ضعیفہ خشكسالی كی وجہ سے پریشان ہوكر اپنے شوہر كے ہمراہ مدینہ آئی ، امام حسن علیہ السلام نے اسے پہچان لیا اور اسے اس كی مہمان نوازی كا قصہ یاد دلایا اور اپنے گھر لے گئے اور ایك ہزار گوسفند اور ایك ہزار دینار عطا فرمایا پھر اسے امام حسین (ع) كی خدمت میں بھیجا تو امام حسین (ع) نے بھی اسے اتنا ہی سونا اور گوسفند عطا فرمایا اور جناب جعفر بن عبداللہ نے بھی اسے ایك ہزار دینار اور ایك ہزار گوسفند ہدیہ دیا ۔ ( كشف الغمہ ،ج/۲،ص/ ۱۳۳(
۸۔ صبر و تحمل 
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كی زندگی كے سخت ترین ایام معاویہ سے صلح كے بعد كے ایام تھے، انھوں نے ان ایام كے ظلم و ستم كو اس طرح تحمل كیا جسے بیان نہیں كیا جا سكتا ہے ، اس دوران آشنا و نا آشنا سب آپ كو برا بھلا كہتے، زخم زبان لگاتے ، آپ كے اكثر چاہنے والے آپ سے منھھ پھیر چكے تھے ، ان سخت حالات میں علی (ع) كو گالی دینے كا چلن تھا اور جب بھی امام كو كوئی دیكھتا تو كہتا تھا ، السلام علیك یا مذل المومنین ، سلام ہو تم پر اے مومنین كو رسوا كرنے والے(بحارالانوار، ج/۷۵، ص/۲۸۷) ، لیكن ان تمام ظلم و ستم كو امام نے بہت ہی صبر كے ساتھ تحمل كیا ۔ 
۹۔ بخشش و عطا 
امام كی بخشش و عطا اتنی مشہور ہے كہ اسے بیان كرنے كی ضرورت نہیں، جب بھی كوئی حاجتمند آپ سے سوال كرتا تو امام كی كوشش یہ ہوتی كہ اسے اتنا عطا كیا جائے كہ اس كی ضرورت پوری ہوجائے اور وہ اتنا بے نیاز ہو جائے كہ پھر كسی كے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے ۔ 
ایك بار خلیفہ سوم مسجد میں بیٹھے تھے ایك سوالی نے آكر ان سے اپنی ضرورت بیان كی تو انھوں نے اسے پانچ درہم دئیے اس نے درہم كو دیكھا اور كہا مجھے كسی ایسے كا پتہ بتا دو جو میری اس سے زیادہ امداد كر سكے ، عثمان نے سائل كو امام حسن كے پاس بھیجا جو اس وقت مسجد میں امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ بن جعفر كے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، فقیر ان كے پاس آیا اور اپنی حاجت بیان كی ، امام نے اس سے دریافت كیا كہ تجھے كیا ضرورت ہے اس لئے كہ كسی سے مدد مانگنا صرف تین صورتوں میں جائز ہے ، اس وقت جب انسان پر كوئی دیت ہو اور وہ ادا نہ كر سكتا ہو ، اس وقت جب وہ مقروض ہو اور قرض واپس كرنے سے عاجز ہو اور اس وقت جب وہ تنگ دست ہو ان میں سے تیرے سامنے كون سی مشكل ہے ؟ 
اس نے اپنی مشكل بیان كی تو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اسے پچاس دینار عطا كئے ، امام حسین علیہ السلام نے اسے انچاس(۴۹) دینار دیئے اور عبداللہ بن جعفر نے حفظ مراتب كا خیال ركھتے ہوئے اڑتالیس(۴۸) دینار عطا كئے ، عثمان نے یہ دیكھ كر كہا : " یہ خاندان علم و حكمت كا مركز اور نیكیوں كا سر چشمہ ہے " (بحارالانوار، ج/۴۳، ص/۳۳۳(
۱۰۔ شجاعت 
شجاعت مولائے كائنات كے خاندان كی میراث تھی اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام آپ ہی كے وارث تھے ، روایتوں میں ہے كہ مولائے كائنات نے اپنے بیٹوں كو خود فنون جنگ كی تعلیم دی تھی ۔ 
جنگ جمل میں مولائے كائنات نے محمد حنفیہ كو ایك نیزہ دیا اور فرمایا : جاؤ اور عائشہ كی اونٹ كو نحر كر دو ، محمد حنفیہ آئے لیكن عائشہ كے چاہنے والوں نے اونٹ كو گھیر ركھا اور كسی كو اونٹ كے نزدیك نہیں آنے دے رہے تھے ۔ جناب محمد حنفیہ نے بہت كوشش كی لیكن ناكام ہو كر امام كے پاس لوٹ گئے ، امام نے وہ نیزہ امام حسن علیہ السلام كو دیا امام نے ایسا دلیرانہ حملہ كیا كہ لوگ پراكندہ ہو گئے اور جب امام حسن(ع) لوٹے تو آپ كے نیزے سے خون ٹپك رہا تھا اور عائشہ كا اونٹ زمین پر گر چكا تھا ، محمد حنفیہ یہ دیكھ كر شرمسار ہوئے تو مولائے كائنات(ع) نے فرمایا : " شرمندہ مت ہو كہ حسن پیغمبر كے فرزند ہیں اور تم علی كے بیٹے ہو" ( مناقب ابن شہر آشوب ، ج/۴، ص/۲۱ (

Sunday / 11 January / 2015