شنبه: 1403/02/15
Printer-friendly versionSend by email
امام حسين عليہ السلام كے جانثاروں كا چہلم

امام حسین علیہ السلام كے با وفا اصحاب كی نیت ، ان كا خلوص اور كربلا میں ان كی قربانیاں ان كی عظمت و بزرگی كی علامت ہیں ۔ تمام اصحاب كو اس بات كا علم تھا كہ روز عاشور سب كو شہید ہو جانا ہے پھر بھی امام حسین علیہ السلام كے گرد پروانہ وار ڈٹے رہے ۔ خود امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے لے كر كربلا تك متعدد مرتبہ اصحاب كو ان كی شہادت كی خبر سنا دی تھی اور جن لوگوں كی نیت میں كھوٹ تھا وہ امام حسین علیہ السلام كا ساتھ چھوڑ كر چلے بھی گئے ۔ لیكن جن كے دلوں میں شمع ایمان روشن تھی انھوں نے امام حسین (ع) كا ساتھ نہ چھوڑا یہاں تك كی شب عاشور جب انصار حسینی نماز و عبادت و تلاوت قرآن میں مشغول تھے ، امام حسین علیہ السلام آئے اور ان كے درمیان ایك خطبہ پڑھا : 
"خداوند متعال كی بہترین حمد و ثنا كرتا ہوں اور خوشی اور غم دونوں حالتوں میں اس كا شكر ادا كرتا ہوں ، خدایا میں اس بات كے لئے تیری حمد كرتا ہوں كہ تونے ہمیں نبوت كے ذریعہ شرافت عطا كی اور ہمیں قرآن سكھایا ، ہمیں فقہ دین سمجھنے كی نعمت سے نوازا اور ہمیں آنكھ، كان اور دل عطا كیا ، اس لئے تو مجھےاپے شكر گزاروں میں سے قرار دے ۔ 
اما بعد : میں اپنے اصحاب سے بہتر اصحاب كو نہیں جانتا اور اپنے اہلبیت سے اچھا كسی گھرانے كو نہیں سمجھتا ہوں ، خدا تمھیں جزائے خیر دے كہ تم نے شرط دوستی و حق وفا ادا كر دیا ، آج ہم پر سخت مصیبت پڑی ہے اس لئے تمہیں اجازت ہے كہ تم سب چلے جاؤ ،تمہارا راستہ كھلا ہوا ہے اور میں نے تم پر سے اپنی بیعت ہٹا لی ہے ، رات كی تاریكی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں سے چلے جاؤ اور ہمیں تنہا چھوڑ دو چونكہ یہ لوگ میرے علاوہ كسی سے دشمنی نہیں ركھتے ہیں ۔"
یہاں پر امام كے اہلبیت اور انصار نے ایك ایك كر كے تقریر كی اور وفاداری كے جذبہ كو دہرایا اور ایسی گفتگو كی جو قیامت تك باقی رہنے والی تھی اور تمام اصفیاء و اولیاء كے لئے سرمشق عمل تھی ۔ 
پھر امام حسین علیہ السلام انصار كو چھوڑ كر اپنے خیمہ میں چلے گئے اور دیگر امور كی وصیت میں مشغول ہو گئے ۔ 
اس واقعہ سے ان لوگوں كا خیال غلط ثابت ہو جاتا ہے جو كہتے ہیں كہ امام حسین علیہ السلام كا قیام سیاسی اور ذاتی مفاد كے لئے تھا ۔بھلا ذاتی اور سیاسی مفاد كے لئے كوئی اپنے جان كی قربانی دے گا جبكہ تمام انصار حسین كو معلوم تھا كہ انھیں شہادت نصیب ہوگی پھر بھی امام كی ہمراہی كرتے رہے دوسری جانب سیاسی قیام میں سب سے زیادہ اس بات كی ضرورت ہوتی ہے كہ لوگوں كو اپنے ساتھ ركھا جائے تاكہ وقت آنے پر وہ لوگ اس كی حمایت كریں لیكن امام حسین علیہ السلام نے سب كی گردن سے بیعت اٹھا لی اور انھیں جانے كی اجازت دے دی ۔ 
اگر یہ قیام سیاسی مفاد كے لئے ہوتا تو نہ امام حسین (ع) انصار كو جانے كی اجازت دیتے نہ ہی انصار امام حسین (ع) پر اپنی جان قربان كرتے ۔ 
اقتباس از گفتمان عاشورایی تالیف آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی

Thursday / 15 January / 2015