پنجشنبه: 1403/01/9
Printer-friendly versionSend by email
انہدام جنت البقيع كي برسي كے موقع پر مرجع عالیقدر حضرت آيت اللہ العظميٰ صافي گلپائگاني قدس سرہ كے نوشتہ جات سے اقتباس

 

بسم  اللہ  الرحمن  الرحیم 
قال اللہ تعالیٰ : وَ ذَكِّرهُم بِأیّام اللهِ
 

بقیع مدینہ منورہ كی زمین كا ایك حصہ ہے جو اپنے دامن میں صدر اسلام كے بہت اہم وقائع كو سمیٹے ہوئے ہے ، ان چودہ صدیوں کے دوران  یہ سر زمین ہمیشہ سے ہمیں صدر اسلام كے وقائع كی یاد دلاتی رہتی ہے ۔ اس سرزمین پر موجود اسلامی آثار كی حفاظت اسلامی تبلیغ اور قرآن كریم كی حمایت كے مترادف ہے ۔ 
یہ آثار اور حرمین شریفین میں موجود دیگر آثار مسلمانوں كے درمیان ہمیشہ مقدس اور محترم رہے ہیں ۔ لوگ اس سرزمین پر سیرت نبوی ، جہاد پیغمبر ، غزوات ، اہلبیت اور اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو مشاہدہ كیا كرتے تھے اس لئے اس سرزمین كی عظمت بلند و برتر ہے ۔ 
حرمین شریفین كا چپہ چپہ بصیرت افروز اور ایمان پرور ہے ۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا وجود پر نور اور آپ سے متعلق دیگر تمام شخصیات ، آپ كا خاندان ،آپ كے دادا جناب عبدالمطلب ، آپ كے چچا جناب ابوطالب، جناب ابوطالب كی زوجہ فاطمہ بنت اسد جو آپ كی ماں كی جگہ تھیں ، مكہ میں مدفون ازواج مطہرات اور نبی كی زوجہ جناب خدیجہ ، سبط اكبر امام حسن علیہ السلام اور ان كی اولاد ، آپ كے ایك اور چچا جناب حمزہ  تاریخ اسلام كا اہم حصہ ہیں ۔ اسی طرح غزوۂ بدر و اُحُد ، مساجد اور بالخصوص  وہ مسجد جہاں پیغمبر(ص) كی ولادت ہوئی، كوہ حرا، غار حرا جہاں سے بعثت اور اسلامی تبلیغ كا آغاز ہوا ، جناب ام ہانی كا مكان جہاں سے معراج ہوئی اور دیگر دسیوں مقامات دین حنیف اسلام كی تاریخ كی نشاندہی كرتے ہیں ۔ حرمین شریفین كعبہ معظمہ اور مسجد النبی(ص) كے علاوہ دیگر تاریخی مقامات كے اعتبار سے اسلامی تاریخ كی عظیم پہچان ہے ۔

لیكن افسوس كہ ان میں سے اكثر مقامات كو منہدم كر كے تاریخ اسلام كو بہت بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے جس كی تلافی کرنا ناممكن ہے ۔
آج كی دنیا میں جہاں حكومتیں اور لوگ اپنی تاریخ اور تاریخی آثار پر فخر كیا كرتے ہیں ، ان لوگوں نے اپنی اس عظیم میراث كو برباد كر ڈالا یا ان كا نام بدل ڈالا ۔ كوئی بھی قوم اپنی تاریخ اور اپنی میراث كو اس طرح ضائع اور برباد نہیں كیا كرتی ہے ۔ 
قرآن مجید نے " بیت" كو آیات بینات اور مقام ابراھیم كے ذریعہ شرف و كرامت عطا كی ہے اور اسی نسبت سے مقام ابراھیم علیہ السلام كو مورد احترام قرار دیا ہے ۔ 
حرمین شریفین میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہیں ۔ وہ تمام مقامات جو حضرت محمد مصطفیٰ (ص) سے منسوب ہیں انھیں باقی ركھنا چاہئے اور زمانے كے ساتھ ساتھ وہ باقی رہیں اور جس طرح مقام ابراھیم مشہور ہے وہ بھی معروف و مشہور ہوں ۔ 
جس طرح توحید كے عظیم مبلغ جناب ابراھیم علیہ السلام كے نام سے وہ مقام زندہ و جاوید ہے اسی طرح نام محمد(ص) اور ان كی تبلیغ توحید اور ان سے منسوب دیگر مقامات كو بھی زندہ و جاوید ركھنا چاہئے اور رہے گا انشاء اللہ ۔ جس طرح مقام ابراھیم كو مسمار كرنا ، اس مقام پر نماز پڑھنے اور عبادت كرنے سے روكنا جائز نہیں ہے اسی طرح ان مقامات كی تعظیم و احترام سے روكنا بھی جائز نہیں ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ (ص) سے منسوب ہیں ۔ 
مكہ و مدینہ كے دیگر مقامات جو دوسرے ناموں سے بھی منسوب ہیں وہ سب پیغمبر اسلام (ص) كے نام و یاد سے باقی ہیں اور یہ سارے مقامات مكمل دعوت توحید ہیں ، دین توحید كی تاریخ ان میں مضمر ہے اور ان كی بقا كلمہ توحید كی بلندی كا باعث ہے ۔ اگر جناب ابراھیم علیہ السلام كو اس ایك مقام كی بنیاد پر یاد كیا جاتا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو متعدد مقامات كی مناسبت سے یاد كیا جانا چاہئے چونكہ وہ سب ان كی زندہ نشانی ہیں ۔ 
تمام مسلمانوں پر فرض ہے كہ اسلامی مقامات كا احترام كریں اور انھیں اس طرح نہ چھوڑ دیں كہ یہ تاریخی میراث بھلا دی جائے یا انھیں ترك كر دیا جائے ۔ 
آٹھ شوال وہ دن ہے جس دن اس گروہ نے بقیع كو مسمار كرنا شروع كیا اور اہلبیت علیھم السلام كے نورانی مراقد كو برباد كیا اور اسلام كی اس نشانی كو اپنے ظلم و ستم كا نشانہ بنایا ، لہذا تمام مسلمان شیعہ اور سنی تمام مذاہب اس دن عالمی پیمانے پر سعودیہ كی اس جنایت كی مذمت كریں اور سب ایك ساتھ مل كر یہ مطالبہ كریں كہ ان قبور كی دوبارہ تعمیر ہو اور دین اسلام كی اس روشن نشانی كو پھر سے زندہ كریں ۔ 
ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم 
 

Sunday / 8 May / 2022