شنبه: 1403/02/15
Printer-friendly versionSend by email
پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي كاميابي كا راز

بہت سے اہم اور قابل توجہ مسائل میں سے ایك مسئلہ بدترین حالات اور نامناسب شرائط میں پیغمبر اكرم كی كامیابی كا ہے جو متفكرین كے درمیان مورد بحث ہے اور بہت سے لوگوں نے اس پر اظہار تعجب كیا ہے ۔ 
چونكہ پیغمبر اكرم كی تبلیغ الٰہی تبلیغ تھی اور ان كی پشت پناہ پروردگار اكرم كی ذات لا یزال تھی اس لئے ان كی كامیابی اور تبلیغ دین كی ترقی كا راز لوگوں سے ساتھ مدارا اور نرم خوئی كے ساتھ پیش آنا تھا ۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے كہ خداوند عالم نے پہلے ہی پیغمبر اكرم (ص) كو اس بات كا حكم دیا تھا اور انھیں ان نامناسب شرائط كے لئے تیار كر ركھا تھا ۔ 
خود پیغمبر اكرم (ص) فرماتے ہیں : 
امرنی ربی بمداراة الناس كما امرنی باداء الفرائض (بحار الانوار ، ج/۱۳ ، ص/۱۳۵)
پروردگار عالم نے مجھے لوگوں كے ساتھ مدارا كرنے كا اسی طرح حكم دیا ہے جس طرح سے ہمیں فرائض كی ادائگی كا حكم دیا ہے ۔ 
خداوند عالم قرآن كریم میں پیغمبر كی كامیابی اور ترقی كا راز بیان كرتے ہوئے ان كی اس طرح سے مدح فرماتا ہے : 
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ(سورۂ آل عمران ،آیت/ ۱۵۹)
ترجمہ: پیغمبر یہ اللہ كی مہربانی ہے كہ تم ان لوگوں كے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ كھڑے ہوتے۔
اس آیت كے پہلے جملے میں پیغمبر اكرم كی مہربانی اور نرم خوئی كا سبب خدا كی رحمت كو قرار دیا گیا ہے چونكہ خداوند عالم بندوں پر مہربان ہے اس لئے آپ كو بھی خوش اخلاق اور مہربان بنایا گیا ہے ۔ دوسرے جملے میں اس بات كی وضاحت ہے كہ اگر پیغمبر ، بداخلاق اور سخت مزاج ہوتے تو لوگ ان كے پاس سے بھاگ كھڑے ہوتے ، جس كا مفہوم یہ ہے كہ اے پیغمبر! اگر آپ دیكھتے ہیں كہ لوگ ہر طرف سے پروانہ وار آپ كے پاس آكر اكٹھا ہو رہے ہیں تو اس كا سبب یہ ہے كہ آپ رحم دل اور مہربان ہیں اور لوگوں كے ساتھ خوش اخلاقی كا مظاہرہ كرتے ہیں اور معاشرتی رابطہ میں سخت مزاج نہیں ہیں ۔ 
یقیناً ! رحم ، انصاف اور لوگوں كے ساتھ مہربانی كا مظاہرہ ، ان كے دلوں كو اپنی طرف كھینچتا ہے اور لوگوں كے ساتھ سنگدلی اور سخت مزاجی كا رویہ اختیار كرنے سے لوگ دور بھاگتے ہیں ۔ 
انس بن مالك ناقل ہیں : " میں پیغمبر كے ہمراہ تھا ، آپ كے دوش پر عبا پڑی ہوئی تھی جس كے كنارے بہت سخت تھے ، یكایك ایك دیہاتی آدمی آیا اور اس نے حضرت كی عبا ان كی گردن میں ڈال كر كھینچنے لگا جس كی سختی سے حضرت كی گردن مبارك پر نشان ابھر آئے ، پھر وہ كہنے لگا ، اے محمد! جو كچھ تمہارے پاس مال و دولت ہے اسے ان دو اونٹوں پر ركھ دو ، چونكہ یہ مال نہ تمہارا ہے نہ تمہارے باپ كا !!"
پیغمبر نے كچھ دیر سكوت كیا پھر فرمایا : " یہ مال خدا كا ہے اورمیں بھی خدا كا بندہ ہوں " پھر فرمایا : " لیكن تم نے جو میرے ساتھ یہ سلوك كیا ہے میں اس كا بدلہ تم سے لوں ؟ " اس نے كہا " نہیں " پیغمبر نے پوچھا " كیوں " اس نے جواب دیا " چونكہ آپ برائی كا بدلہ برائی سے نہیں دیتے ہیں " 
پیغمبر اس كے جواب پر مسكرائے ، پھر فرمایا : اس كے ایك اونٹ پر جو اور دوسرے پر خرما ركھ دیا جائے ۔ 
اقتباس از : كتاب " سیری گذرا در سیرہ رسول اللہ " تالیف حضرت آیۃ اللہ كریمی جہرمی دامت بركاتہ

Thursday / 15 January / 2015