سه شنبه: 1403/02/4
Printer-friendly versionSend by email
جناب زينب(س) مبلغ و محافظ انقلاب كربلا

جس دن سے حضرت سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے ساتھ خواتین اور بچوں كو كربلا كی طرف لے جانے كا عزم كیا بہت سے بزرگ صحابہ نے امام كو یہ مشورہ دیا كہ اس ارادہ سے صرف نظر كریں اور كم سے كم اپنے ساتھ خواتین اور بچوں كو نہ لے جائیں چونكہ یزید اور اس كے ساتھی كسی پر بھی رحم نہیں كریں گے ۔ صحابہ نے دلسوزی اور شفقت كی بنیاد پر یہ مشورہ دیا تھا چونكہ وہ صرف ظاہری امور كو دیكھ رہے تھے اور ظاہری اعتبار سے ان كا كہنا صحیح بھی تھا چوكہ واقعہ كربلا كے بعد بہت سے علماء اور مورخین اور شیعوں نے یہ لكھا ہے كہ كاش امام علیہ السلام خواتین كو اس گرداب میں نہ لاتے ، كاش خواتین بالخصوص حضرت زینب(س) اور چھوٹے چھوٹے بچے ظالموں كے ہاتھوں اسیر نہ ہوتے ۔ 
لیكن امام حسین علیہ السلام كی نظر میں اس واقعہ كا پس منظر تھا جسے دوسرے نہیں درك كر سكتے تھے ۔ تحریك كربلا كے دو مہم حصہ ہیں جن كو سمجھے بغیر تحریك كربلا كی صحیح تفسیر سمجھ میں نہیں آ سكتی ہے ۔ تحریك كربلا كا پہلا حصہ امام حسن علیہ السلام كی شہادت سے شروع ہوتا ہے اور روز عاشورا سن ۶۱ ہجری تك ہے جس میں امام حسین علیہ السلام اور ان كے مختصر باوفا اصحاب نے اپنے ایمان و وفاداری كا ثبوت دیا ہے اور اپنا پیغام دنیا والوں كے سامنے پہنچا كر جام شہادت نوش كیا ۔ اور اس كا دوسرا حصہ عصر عاشورا كے بعد شروع ہوتا ہے ۔ تحریك كے اس حصہ میں جناب زینب(س) اور سید سجاد(ع) نے امام حسین (ع) اور ان كے وفادار اصحاب و انصار كا پیغام دنیا والوں كے سامنے پہنچانے كی ذمہ داری نبھائی ہے ۔ چونكہ ان ایام میں امام سجاد علیہ السلام بیمار تھے لہذا اس پیغام كو پہنچانے میں جناب زینب كا كردار برجستہ اور بنیادی كردار تھا ۔ اس كو سمجھنے كے بعد امام حسین علیہ السلام كے خیر خواہ  اصحاب اور مورخین كے سوال كا جواب واضح ہو جاتا ہے كہ امام حسین علیہ السلام خواتین اور بچوں كو اپنے ہمراہ كیوں لائے تھے ۔ اگر واقعہ عاشورا كے بعد جناب زینب(س) كے وہ خطبات نہ ہوتے اگر انھوں نے یزیدی عزائم كا پردہ فاش نہ كیا ہوتا تو آج عاشورا اور انقلاب عاشورا كا كوئی نام و نشان نہ رہ جاتا ۔ ایسی صورت میں كیا امام حسین(ع) كی قربانی اور اصحاب كی جانفشانی رایگان نہ چلی جاتی ؟ كیا دنیا والے یزیدی مظالم سے باخبر ہو پاتے ؟ جناب زینب(س) نے یزید كے دربار میں اسے ذلیل اور رسوا كر دیا اور اپنے شعلہ بیان خطبہ میں یزید سے فرمایا : " عنقریب تم اور جس نے تم كو اس كرسی پر بٹھایا ہے اور تم كو مومنین پر مسلط كیا ہے اسے معلوم ہو جائے گا كون سب سے برا اور لشكر كے اعتبار سے سب سے ضعیف ہے ۔ جس دن خدا قاضی ہوگا اور ہمارے جد پیغمبر(ص) تیرے دشمن اور تیرے اعضاء و جوارح تیرے خلاف گواہی دیں گے ۔ اگر چہ آج تونے ہمیں اسیر كیا ہے لیكن عنقریب ہم اس كا بدلہ تجھ سے لیں گے ۔ خدا كی قسم ! ہم خدا كے سوا كسی سے بھی نہیں ڈرتے ہیں اور اس كے علاوہ كسی اور كے سامنے اپنی شكایت نہیں پیش كرتے ، تو جو بھی مكر و حیلہ كر سكتا ہے كر لے ، ہرگز ہمارے ساتھ بدسلوكی كر كے تونے جو ننگ و عار مول لیا ہے اس سے خود كو مبرّا نہیں كر سكتا ہے " ۔ 
ڈاكٹر عایشہ بنت الشاطی لكھتی ہیں : " زینب خاموش ہو گئیں لیكن یزید اور اس كے ساتھی اس طرح خاموش اور بے حس و حركت بیٹھے تھے كہ جیسے ان كے سروں پر طائر بیٹھے ہوں اور وہ اس ڈر سے سر نہ ہلا رہے ہوں كہ كہیں طائر اڑ نہ جائیں ۔ یزید كے اندر اتنی ہمت نہ تھی كہ جناب زینب(س) سے آنكھ ملاتا اور جو كچھ سنا تھا اس كی وجہ سے وہ لرز رہا تھا ۔ " 
یقیناً اگر جناب زینب نہ ہوتیں تو آج كربلا كی اس نجات بخش تحریك كا كوئی نام و نشان نہ ہوتا ۔ 
بعض روایات كی بنیاد پر ۱۵ رجب جناب زینب (س) علیھا كی وفات كی تاریخ ہے ۔ 

Wednesday / 30 November / 2022