جمعه: 1403/01/10
Printer-friendly versionSend by email
سلطان صلح و ادب حضرت امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام كي ولادت باسعادت كے موقع پر حضرت آيۃ اللہ العظميٰ صافي گلپائگاني قدس سرہ كي تحریر سے اقتباس

 

اشارہ : نیمہ ماہ مبارك رمضان اسوہ حلم و صبر و صلح حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كی ولادت كا دن ہے ۔ 
بہت سے لوگ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كی كما حقہ معرفت نہیں ركھتے ہیں اور آج بھی آنحضرت علیہ السلام كی شان و منزلت مجہول ہے ۔ 
مرجع عالیقدر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی مد ظلہ العالی نے اس مختصر مضمون امام علیہ السلام كے فضائل كے كچھ گوشہ بعض اہلسنت كی كتابوں كے حوالے سے ذكر كیا ہے تاكہ یہ مختصر فضیلتوں كے اس سمندر میں غوطہ ور ہونے كے لئے اور امام كی كما حقہ معرفت حاصل كرنے كے لئے تمہید بن سكے انشاء اللہ تعالیٰ ۔۔۔
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كی شخصیت اتنی باعظمت ہے كہ مجھ جیسے حقیر كے بس میں نہیں كہ میں ان كی توصیف میں كوئی مقالہ یا كتاب لكھ سكوں ۔ 
شیعہ علماء اور دانشوروں كے علاوہ بعض اہلسنت كے بزرگ علماء نے بھی امام حسن علیہ السلام كے بارے میں كتابیں لكھی ہیں اور مختلف مقامات پر آپ كے فضائل و مناقب كو اپنی تفسیر ، كتب احادیث، اخلاقی كتب اور تراجم و رجال میں آپ كے فضائل و مناقب كو ذكر كیا ہے ۔ "صحیح بخاری" ، "صحیح مسلم"، " سنن ترمذی" ، " سنن ابن ماجہ " ، " طبقات ابن سعد" ، " سنن ابی داؤد " ، " خصائص نسائی " ، " جامع الصغیر" ، " مصابیح السنۃ" ، "اسعاف الراغبین" ، "نورالابصار" ، " تذكرۃ الخواص" ، " الاتحاف" ، " كفایۃ الطالب" ، " شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید" ، "مرآۃ الجنان" ، " ملتقی الاصفیاء، " نظم درر السمطین" ، " فراید السمطین" ، " سیرہ حلبیہ" ، " اسد الغابہ" ، " الاستیعاب" " الاصابۃ" " تاریخ الخلفاء، " الفصول المہمہ" وغیرہ جیسی كتابوں میں آپ كا ذكر پایا جاتا ہے ۔ 
ہم یہاں پر اختصار كی رعایت كرتے ہوئے "توفیق ابوعلم"۱كی كتاب " اہل البیت"(صفحات ۲۶۳۔ ۴۱۵) كے كچھ حصہ كا ترجمہ بعض اضافات كے ساتھ پیش كر رہے ہیں ۔ یہ كتاب سن ۱۳۹۰ہجری میں مصر میں لكھی گئی ہے ۔

لا تعداد فضائل 
شیعہ اور اہلسنت دونوں كا یہ عقیدہ ہے كہ آنحضرت اصحاب كساء میں سے ہیں جن كی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے اور متواتر حدیث " حدیث ثقلین" كے مطابق آپ قرآن كے ہم پلہ اور ان چار لوگوں میں سے ہیں جنہیں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہمراہ نجران كے نصاریٰ سے مباہلہ كرنے كے لئے لے گئے تھے ۔ 
" اسامہ بن زید" نے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت كی ہے كہ آپ نے فرمایا : یہ دونوں (حسن و حسین) میرے فرزند ، میری بیٹی كے بیٹے ہیں ، خدایا! میں انھیں دوست ركھتا ہوں تو بھی انھیں دوست ركھ، اور جو انھیں دوست ركھے انھیں بھی دوست ركھ ۔ 
"زید بن ارقم " سے روایت ہے كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : 
مَنْ اَحبَّ هوُلاءِ فَقَدْ اَحَبَّنی، وَ مَنْ اَبْغَضَ هؤُلاءِ فَقَدْ اَبْغَضَنی ( كشف الغمہ ، ج/۲، ص/۱۴۹ )
جو بھی انھیں ( علی ، فاطمہ ، حسن و حسین) كو دوست ركھے وہ مجھے دوست ركھے گا اور جو ان سے دشمنی كرے گا وہ مجھ سے دشمنی كرے گا ۔ 
"عایشہ " سے منقول ہے : 
اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ كانَ یَأخُذُ حَسَناً فَیَضُمُْهُ اِلَیهِ ثُمَّ یَقُولُ: «اللّهُمَّ إنَّ هذا ابْنی وَ اَنَا اُحِبُّهُ فَاَحِبَّهُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُ ،۲
انس بن مالك كہتے ہیں : حسن علیہ السلام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی خدمت میں آئے ، میں نے چاہا كہ انھیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور كر دوں لیكن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : افسوس ہے تم پر اے انس ، میرے بیٹے اور میوہ دل كو چھوڑ دو جو بھی اسے اذیت كرے گا وہ مجھے اذیت كرے گا اور جو مجھے اذیت دے گا وہ خدا كو اذیت دے گا ۔ 
مكارم اخلاق 
امام حسن علیہ السلام كی پرورش خانہ وحی میں ہوئی مكتب توحید اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی آغوش رحمت میں تربیت پائی ۔
آپ خوش رفتاری اور حسن اخلاق اور نیك كرداری میں نمونہ تھے ، آپ كی غیر معمولی محبوبیت كا ایك سبب آپ كا كریمانہ اخلاق تھا جس كی بنیاد پر سبھی آپ كے ثناخواں بن جاتے تھے ۔ 
ادب ، حلم ، فصاحت ، صداقت ، سخاوت ، شجاعت ، تقویٰ ، عبادت ، زہد ، تواضع، اور دیگر صفات حمیدہ آپ كے اندر یكجا تھیں اور اخلاق محمدی(ص) آپ كے كردار سے جھلكتا تھا ۔ 
آنحضرت كے صفات حمیدہ اور اخلاق كریمہ كے چند نمونہ ہم اس مضمون كی زینت كے لئے ذكر كر رہے ہیں ۔ 
 عذاب الٰہی كا خوف 
امام حسن علیہ السلام اپنے زمانے كے سب سے بڑے عبادتگذار ، زاہد اور فاضل انسان تھے ۔ حج كے لئے نكلتے تو پیادہ چلتے اور كبھی كبھی پابرہنہ حج كے لئے نكلتے تھے ۔ وضو كرتے وقت بدن كانپنے لگتا اور چہرے كا رنگ زرد ہو جاتا تھا ۔ كسی بھی وقت ذكر خدا ترك نہیں كرتے تھے ، متقی پرہیزگار ، حلیم و بردبار تھے اور خدا كا خوف دل میں ركھتے تھے ۔ 
روایت میں ہے كہ ایك شخص نے آنحضرت كے گریہ و مناجات كو سنا تو كہنے لگا : كیا آپ كو عذاب الٰہی سے ڈر لگتا ہے جبكہ وسیلہ نجات آپ كے پاس ہے ؟ آپ پیغمبر(ص) كے فرزند ہیں ، حق شفاعت آپ كے پاس ہے ، اور رحمت الٰہی عام ہے اور ہر شئی كو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ۔ 
امام نے جواب دیا : تم نے كہا كہ میں رسول خدا كا فرزند ہوں تو خداوند عالم كا ارشاد ہے : 
فَاِذا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلا اَنْسابَ بَیْنَهُمْ (سورہ مومنون، آیت/۱۰۱)
پھر جب صور پھونكا جائے گا تو رشتہ داریاں نہ رہ جائیں گی ۔
شفاعت كے لئے خداوند عالم فرماتا ہے : 
مَنْ ذَاالَّذی یَشْفَعُ عِنْدَهُ اِلا بِاِذْنِهِ (سورہ بقرہ، آیت/۲۵۵)
كون ہے جو اس كی بارگاہ میں اس كی اجازت كے بغیر سفارش كرسكے
رحمت الٰہی ہر چیز كا احاطہ كئے ہوئے ہے ، خداوند عالم كا ارشاد ہے : 
فَسَاَكْتُبُها لِلَّذینَ یَتَّقُون (سورہ اعراف ،آیت/۱۵۶) 
جسے میں عنقریب ان لوگوں كے لئے لكھ دوں گا جو خوف خدا ركھنے والے ہیں ۔
اس كے بعد حضرت نے فرمایا: 
فَكَیْفَ الْاَمانُ یا أخَا الْعَرَبِ ،

اس طرح كس كے لئے امان ہے اے بھائی ۔ 
 زہد امام 
امام كے زہد كا یہ عالم تھا كہ دنیا اور اس میں پائی جانے والی تمام نعمتوں سے وابستگی كے تمام اسباب كو خیرباد كہہ دیا تھا اور صرف آخرت اور ابدی منزل كی جانب توجہ تھی جیسا كہ خود آپ نے فرمایا 

) مَنْ عَرَفَ اللهُ اَحَبَّهُ، وَ مَنْ عَرَفَ الدُّنْیا زَهَّدَ فیها، وَ الْمُؤْمِنُ لایَلْهُو حَتّی یَغْفُلَ، اِذا تَفَكَّرَ حَزَنَ " ( اہل البیت، توفیق ابوعلم، ص/۲۹۶ 
ترجمہ : جو خدا كو پہچان لے گا اس سے محبت كرے گا جو دنیا كو پہچان لے گا اس سے بے رغبت ہو جائے گا ، مومن لہو لعب میں مشغول ہو كر غافل نہیں ہوتا اور جب لہو و لعب كے بارے میں سوچتا ہو تو غمگین ہو جاتا ہے ۔ 
امام علیہ السلام نے اسلام و مسلمین كی مصلحت كی خاطر دنیا كی حكومت سے چشم پوشی كیا ۔ 
جب بھی امام موت كے وقت انسان كی حالت كو ذہن میں لاتے تو ناخواستہ طور پر رونے لگتے ، اور جب بھی حشر و نشر اور پل صراط سے گزرنے كا خیال آتا تو گریہ كرتے ، اور جب خداوند عالم كے سامنے حساب و كتاب كے لئے حاضری كا تصور كرتے تو نالہ و شیون كرتے كرتے بیہوش ہو جاتے تھے ۔ 
 رحمت الٰہی كی نمایش 
امام حسن علیہ السلام اپنے جد امجد پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرح رحمت الٰہی كا مظہر تھے جو ناامید اور غمناك دلوں كو امید و رحمت سے بھر دیتے تھے ، كمزور لوگوں كو دیكھنے كے لئے جاتے تھے ، بیمار كی عیادت كرتے تھے ، تشییع جنازہ میں شریك ہوتے تھے ، مسلمانوں كی دعوت قبول كرتے تھے اور ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا كہ كہیں كوئی آپ سے رنجیدہ خاطر نہ ہو جائے ، آنحضرت كی جانب سے كسی كو كوئی تكلیف نہیں ہوتی تھی ، فقیروں كے ساتھ بیٹھتے تھے اور برائی كا جواب اچھائی سے دیا كرتے تھے ۔ 
 حلم امام 
امام حسن علیہ السلام انسان كامل كا حقیقی مصداق اور اخلاق پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا كامل نمونہ تھے ، غیض و غضب كے عالم میں كنٹرول نہیں كھوتے تھے اور زندگی كی مشكلات آپ كو پریشان نہیں كرتی تھی ، غصہ میں كوئی كام انجام نہیں دیتے تھے ، اور آپ كا ہر عمل ان آیات كا بارز مصداق تھا 
وَ الْكاظِمینَ الْغَیْظَ وَالْعافینَ عَنِ النّاسِ وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنینَ (سورہ آل عمران ، آیت/ ۱۳۴) 
ترجمہ: اورغصّہ كو پی جاتے ہیں اور لوگوں كو معاف كرنے والے ہیں اور خدا احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے
وَلا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلاَالسَیِّئَةُ، اِدْفَعْ بِالَّتی هِی اَحْسَنُ (سورہ فصلت، آیت/۳۴) 
ترجمہ: نیكی اور برائی برابر نہیں ہوسكتی لہٰذا تم برائی كا جواب بہترین طریقہ سے دو ۔ 
آنحضرت اپنے دشمنوں كی جانب سے ہونے والے ہر اقدام كا جواب صبر و عفو كے ذریعہ دیتے تھے ، یہاں تك كہ مروان بن حكم جو كہ اہلبیت علیھم السلام كا خبیث ترین دشمن ہے ، اس نے امام كو حلم اور بردباری كا پہاڑ كہا ہے ۔ 
وہ اپنے جد امجد كی طرح حلم و صبر و عفو میں نمونہ عمل تھے ، تاریخ كے دامن میں آپ كے اخلاق كے بہت ہی نادر نمونہ محفوظ ہیں جو اس بات پر دلالت كرتے ہیں كہ آپ صاحبان اخلاق كے سردار اور عالم اسلام میں ادب و اخلاق كی بنیاد ركھنے والے ہیں ۔ 
بے نظیر سخاوت 
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كا كرم اور سخاوت بھی عجیب تھا ، حقیقی سخاوت كا مطلب نیك نیتی سے نیك كام كرنا اور احسان كے ارادے سے احسان كرنا ہے، یہ صفت امام حسن علیہ السلام كا امتیاز تھی اور خدا اس صفت كو دوست ركھتا ہے ۔ 
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كے اندر یہ صفات بحد كمال موجود تھیں اس طرح كہ آپ كو " كریم اہل البیت" كا لقب دیا گیا ہے ۔ 
امام حسن علیہ السلام اپنے جود و سخاوت ، غریبوں كی مدد اور امت كی مدد اور راہ خدا میں انفاق كی وجہ سے عام شہرت كے حامل تھے ۔ 
امام كی نظر میں مال دنیا كی كوئی قیمت نہ تھی ، اور اسے كوئی اہمیت نہ دیتے تھے مگر یہ كہ اس كے ذریعہ كسی بھوكے كا پیٹ بھر جائے ، یا كسی بے لباس كو لباس مل جائے ، یا كسی مصیبت زدہ كے كام آ جائے یا اس مال كے ذریعہ كسی قرضدار كا قرض ادا ہو جائے ۔ 
سخاوت امام كی ذات كا حصہ تھی ، اگر چہ امام كے دروازے پر محتاج اور نادار افراد كا سیلاب امنڈ آتا تھا لیكن آپ كی باران سخاوت ان سب پر برستی اور كوئی سوالی آپ كے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا ۔ 
آنحضرت سے پوچھا گیا : كس طرح آپ كے در سے كوئی سائل خالی ہاتھ نہیں جاتا ہے ؟ 
جواب دیا : میں خود درگاہ الٰہی كا سائل ہوں ، مجھے شرم آتی ہے كہ خود سائل ہو كر كسی سائل كو خالی ہاتھ لوٹا دوں ۔ 
 لوگوں سے محبت 
امام علیہ السلام شیرین بیان ، خوش رفتار اور لوگوں كی نظر میں محبوب تھے ، بوڑھے ، جوان سبھی آپ كو آپ كے اخلاق حمیدہ اور پسندیدہ صفات كی وجہ سے دوست ركھتے تھے ، ہمیشہ لوگوں كو ہدایا اور بخشش سے نوازتے چاہے لوگ تقاضا كریں یا نہ كریں ۔ 
نماز صبح كے بعد طلوع آفتاب تك تعقیبات میں مشغول رہتے ، پھر جن كے پاس جانا ہوتا وہاں جاتے اور ان كے ساتھ مہر و محبت كا مظاہرہ كرتے ، اور نماز ظہر ادا كرنے كے بعد مسجد میں بیٹھتے اور لوگوں كو علم و ادب كی تعلیم دیتے تھے ۔ 
یہ ہے امام حسن علیہ السلام كے فضائل و مناقب كے بحر ذخار كا ایك قطرہ كہ جس سے زیادہ كچھ بیان كرنے كی طاقت ہم میں نہیں ہے ، كہ جتنا بھی بیان كیا جائے كم ہے اور الفاظ ان كی توصیف سے عاجز ہیں ۔ 
صَلَّی اللهُ عَلی جَدِّه وَ عَلی اَبیهِ وَ اُمِّهِ وَ عَلَیْهِ وَ عَلی اَخیهِ، وَ عَلَی الاَْئِمَّةِ التِّسْعَةِ مِنْ ذُرِّیَّةِ الْحُسَیْنِ عَلَیْهِمُ السَّلامِ ۔ 
 

Sunday / 17 April / 2022