سه شنبه: 1403/02/11
Printer-friendly versionSend by email
شب قدر كے اعمال

 

شب قدر میں پرودگار كی رحمت كے امیدوار بندہ كو چاہئے كہ وہ خود كو آب غسل سے معطر كرے اور بہتر یہ ہے كہ یہ غسل غروب آفتاب كے نزدیك ہو تاكہ نماز مغرب اسی غسل سے ادا كی جائے ۔ 
جانماز پر كھڑا ہوكر نماز شب قدر كی نیت كرے اور دو ركعت نماز اس طرح بجا لائے كہ ہر ركعت میں سورۂ حمد كے بعد سات مرتبہ سورۂ توحید (قل ھواللہ) پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے كے بعد ستر مرتبہ " استغفر الله و اتوب الیه " پڑھے ۔ 
قرآن اپنے سامنے كھول كر ركھے اور اس دعا كو پڑھے :

 اللهم انی اسئلك بكتابك المنزل و ما فیه و فیه اسمك الاكبر و اسمائك الحسنی و ما یخاف و یرجی ان تجعلنی من عتقائك من النار ،

اور پھر قرآن كو واسطہ قرار دے كر اپنی حاجت طلب كرے۔ 
 جب بندہ اپنے پروردگار كی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے تو وہ امید اور خوف كے درمیان ہوتا ہے ۔ ایك طرف اسے یہ یقین ہوتا ہے كہ خداوند صالح بندوں كی امیدوں كا مركز اور آرزؤوں كا مقصد ہے اور اس سے امید ركھنا عالم وجود كی سب سے قوی امید ہے اور دوسری طرف بندہ اپنے اعمال كی سستی سے خائف ہوتا ہے كہ كہیں ہمارے یہ ناقص اعمال حجاب اور مانع نہ بن جائیں ، اس بات كا ڈر بھی رہتا ہے كہ كہیں یہ گریہ و زاری گناہوں كے سیاہ پردے میں گم ہو كر نہ رہ جائے لیكن یہ گناہگار بندہ اسی خوف و امید كے درمیان اپنے پروردگار سے لو لگاتا ہے اور اس سے اپنا درد دل بیان كرتا ہے ۔

خدا كے اس مہمان كی سب سے پہلی خواہش گناہوں كی سیاہی سے پاكیزگی ہے ، پھر اپنی روح كو آب توبہ سے پاك كرتا ہے اور اپنے پرودگار سے بخشش طلب كرتا ہے ۔ مذكورہ دعا كو پڑھنے كے بعد توبہ كرنے والا بندہ كچھ دیر ٹھہر كر اپنی دنیاوی اور اخروی حاجتوں كو اپنے دل میں تصور كرتا ہے ۔ 
 قرآن شریف اٹھا كر سر پر ركھتا ہے اس كا مطلب ہے كہ وہ چاہتا ہے كہ اپنی جان كو قرآن پر قربان كر دے ، اس كا احساس ، فكر و ذكر اور پوری زندگی قرآن كے سایہ میں گزرے اس لئے پھر اپنے محبوب كے سامنے اپنے دل كے عقدے كھول كے آواز دیتا ہے ۔ 
اللهم بحق هذا القرآن و بحق من ارسلته به و بحق كل مؤمن مدحته فیه و بحقك علیهم فلا احد اعرف بحقك منك
خدا كو ثقلین(قرآن و عترت) كی قسم دیتا ہے ۔ 
متقی ، پرہیزگار اور خدا كے محمود بندوں كو واسطہ قرار دیتا ہے ۔ 
وہ خداوند عالم سے لو لگانا چاہتا ہے جبكہ اس بات كا اقرار كرتا ہے كہ خدا كے علاوہ كوئی اس كی حقیقت كو نہیں جانتا ، كوئی دوسرا خدا كی توصیف بھی نہیں كر سكتا ہے ۔ 
پھر وہ خداوند عالم كے سامنے ان مبارك ناموں كو اپنی زبان پر جاری كرتا ہے بلكہ اس كے وجود كا ہر ذرہ ان ناموں كو دہراتا ہے اور ہر نام كو دس مرتبہ تكرار كرتا ہے ۔ 
بك یا الله... بمحمد... بعلی... بفاطمه... بالحسن... بالحسین... بعلی بن الحسین... بمحمد بن علی... بجعفر بن محمد... بموسی بن جعفر... بعلی بن موسی... بمحمد بن علی... بعلی بن محمد... بالحسن بن علی... بالحجة
اس مرحلہ سے گزرنے كے بعد وہ خداوند عالم كا دوست بن جاتا ہے دل سے ہر كدورت پاك ہو جاتی ہے اور دل میں كوئی كدورت ہے نہ كوئی رنجش ۔ 
یہاں سے ایك نئی زندگی كا آغاز ہوتا ہے ، ایك اچھی زندگی كی امید ، عمیق فكر كی آرزو اور ایك پاكیزہ احساس كی تمنا لے كر ، اس امید كے ساتھ كہ پھر خدا كی بارگاہ میں شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔

Thursday / 15 January / 2015