سه شنبه: 1403/02/11
Printer-friendly versionSend by email
شہادت مولي المتقين امام المسلمين امير المومنين علي بن ابي طالب عليہ السلام

تَهَدَّمَتْ وَاللّهِ اَرْكانُ الْهُدى وَانْطَمَسَتْ اَعْلامُ التُّقى وَانْفَصَمَتِ الْعُرْوَةُ الْوُثْقى قُتِلَ ابْنُ عَمِّ الْمُصطَفى قُتِلَ الْوَصِىُّ الْمُجْتَبى قُتِلَ عَلِىُّ الْمُرْتَضى قَتَلَهُ اَشْقَى الاَشْقِیاءِ . 
خدا كی قسم! اركان ہدایت منہدم ہو گئے ، تقویٰ كی نشانیاں محو ہو گئیں ، خدا كی مضبوط رسی ٹوٹ گئی ، محمد مصطفیٰ (ص) كے بھائی قتل كر دئیے گئے ، پیغمبر(ص) كے منتخب وصی قتل كر دئیے گئے ، علی مرتضیٰ(ع) قتل كر دئیے گئے ، انھیں سب سے بڑے شقی(بدقسمت) نے قتل كیا ۔ 
۱۹ویں رمضان كی صبح میں جس وقت ابن ملجم مرادی ملعون نے زہر سے بجھی ہوئی تلوار سے امیرالمومنین علیہ السلام كے سر پر ضربت لگائی زمین و آسمان لرز اٹھا ، مسجد كے دروازے ایك دوسرے سے ٹكرانے لگے اور مولائے كائنات نے صدائے تكبیر بلند كرتے ہوئے اعلان فرمایا : فزت و رب الكعبہ ، رب كعبہ كی قسم! میں كامیاب ہو گیا اور ادھر جبرئیل امین نے نوحہ كیا كہ اركان ہدایت منہدم ہوگئے ، علی مرتضیٰ شہید كر دئیے گئے ۔ 
یہ سنتے ہی امام حسن علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام كے اصحاب و انصار بڑی تعداد میں مسجد میں پہنچے سب نے كوشش كی كہ مولیٰ كو كھڑا كریں تاكہ نماز صبح اد ہو سكے لیكن علی علیہ السلام كی توانائی جواب دے چكی تھی ، آپ نے امام حسن علیہ السلام كو نماز پڑھانے كا حكم دیا ۔ 
مولائے كائنات كی شہادت كی خبر سارے كوفہ میں پھیل گئی چاہنے والے اكٹھا ہوئے ، امام كا سر امام حسن علیہ السلام كے دامن میں تھا سر كو ردا سے باندھا گیا تھا لیكن زخم اس قدر گہرا تھا كہ خون بند نہیں ہو رہا تھا ۔

امام كو گھر لایا گیا ، اطباء آئے زخم كا معاوینہ كیا لیكن زخم كی سنگینی دیكھ كر جواب دے دیا مولائے كائنات نے تین دن كرب و بے چینی كے عالم میں بستر پر گزارے اور اكیسویں رمضان كی شب میں سارے اہل خاندان كو اكٹھا كیا اور وصیت كرنا شروع كی ۔ 
امام حسن علیہ السلام سے فرمایا : بیٹا حسن ! جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو مجھے غسل دینا اور رسولخدا(ص) كے حنوط سے بچے ہوئے كافور سے مجھے حنوط كرنا كیونكہ كہ وہ جنتی كافور ہے جسے جبرئیل امین آنحضرت كے لئے لائے تھے ۔ مجھے تابوت میں ركھنا اور تابوت كو آگے سے مت اٹھانا بلكہ پیچھے سے تابوت اٹھانا اور تابوت جس طرف جائے تم بھی اس كے پیچھے پیچھے جانا ، جہاں رك جائے سمجھ لینا میری قبر وہیں پر ہے اور میرا جنازہ زمین پر ركھ دینا ، بیٹا حسن تم میرے جنازے پر نماز پڑھنا اور سات تكبیریں كہنا اور جان لو كہ سات تكبیریں میرے علاوہ كسی كے لئے جائز نہیں ہیں سوائے تمہارے بھائی حسین كے فرزند پر جو قائم آل محمد ، مہدی امت ہے ، جو لوگوں كے درمیان اصلاح كرے گا ۔ جب نماز تمام ہو جائے تو جنازے كو اٹھانا اور وہاں كی خاك كھودنا تمہیں وہاں پر ایك آمادہ قبر ملے گی جس میں ایك تخت بھی ہوگا ، وہ قبر میرے جد نوح علیہ السلام نے میرے لئے بنائی ہے ، مجھے تخت پر ركھ كر قبر میں لٹا دینا اور وہاں سات بڑی اینٹیں ہونگی ان سے میری لاش كو پنہاں كر دینا پھر تھوڑی دیر صبركرنا اور پھر ایك اینٹ اٹھا كر قبر میں دیكھنا تو تمہیں میری لاش وہاں نہیں ملے گی چونكہ میں تمہارے جد رسولخدا(ص) سے ملحق ہو جاؤنگا ۔ كیوں كہ اگر كسی پیغمبر كو مشرق میں دفن كریں اور اس كے وصی كو مغرب میں تو خداوند عالم وصی كی روح اور جسم كو اس نبی سے ملحق كر دیتا ہے ۔ پھر میری قبر پر خاك ڈال كر اسے لوگوں كی نظر سے پنہاں كر دینا ۔

اقتباس از منتھی الآمال ، ج/۱،باب سوم ، فصل چہارم 

Thursday / 15 January / 2015