سه شنبه: 1403/02/11
Printer-friendly versionSend by email
علي عليہ السلام؛ سب سے پہلے رسالت كي تصديق كرنے والے

نہج البلاغہ كے خطبہ نمبر ۳۷ میں مولائے كائنات علیہ السلام اپنی شخصیت كو دنیا كے سامنے پہچنواتے ہوئے سب سے پہلے اپنے روشن سوابق كا ذكر كرتے ہیں پھر اپنے كمالات اور مقامات كو دنیا كے سامنے بیان كرتے ہیں ۔ پھر دشمنوں كے مقابلے میں اپنی استقامت و خودمختاری كا ذكر كرتے ہوئے اس بات پر فخر كرتے ہیں كہ میں كمال كی اس منزل پر فائز ہوں كہ دشمن میرے اندر كوئی نقطہ ضعف نہیں پیدا كرسكتا ۔ اس كے بعد مولائے كائنات اپنی نظر میں عزت و ذلت كا معیار بیان كرتے ہیں اور پھر اس بات كا اقرار كرتے ہیں كہ میں بارگاہ الٰہی میں سراپا تسلیم ہوں اور خدا كی مرضی پر راضی ہوں ۔ 
اس كے بعد فرماتے ہیں : 
أَ تَرَانِی أَكْذِبُ عَلَى ؟ رَسُولِ اَللَّهِ ص ؟ وَ اَللَّهِ لَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَهُ فَلاَ أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ كَذَبَ عَلَیْهِ فَنَظَرْتُ فِی أَمْرِی فَإِذَا طَاعَتِی قَدْ سَبَقَتْ بَیْعَتِی وَ إِذَا اَلْمِیثَاقُ فِی عُنُقِی لِغَیْرِی 
ترجمہ : كیا تم یہ گمان كرتے ہو كہ میں رسول اللہ پر جھوٹ باندھتا ہوں. خدا كی قسم میں وہ ہوں جس نے سب سے پہلے آپ كی تصدیق كی, تو اب آپ پر كذب تراشی میں كس طرح پہل كروں گا ۔
مولائے كائنات علیہ السلام كے مقام و منزلت كو سمجھنے كے لئے یہ خطبہ بہت ہی كارساز ہے ۔ ان جملوں میں مولائے كائنات كے عظیم معنوی مقامات كو بیان كیا گیا ہے ۔یوں تو اس خطبہ كا ہر جملہ مولائے كائنات كی عظمت كا بیان ہے لیكن اس كے كچھ جملے بہت ہی جاذب نظر ہیں جیسے یہ جملہ جس میں آپ فرماتے ہیں : " كُنْتُ أَخْفَضَهُمْ صَوْتاً وَ أَعْلاَهُمْ فَوْتاً " گومیری آواز ان سب سے دھیمی تھی. مگر سبقت و پیش قدمی میں میں سب سے آگے تھا ۔
اسی طرح یہ جملہ جس میں اپنے عزم بالجزم اور قاطعیت كو بیان كرتے ہوئے فرماتے ہیں ، " كَالْجَبَلِ لاَ تُحَرِّكُهُ اَلْقَوَاصِفُ وَ لاَ تُزِیلُهُ اَلْعَوَاصِفُ " معلوم ہوتا تھا جیسے پہاڑ جسے نہ تند ہوائیں جنبش دے سكتی ہیں, اور نہ تیز جھكڑ اپنی جگہ سے ہلا سكتے ہیں ۔
اور تیسرا جملہ جس میں اپنے سب سے عظیم فخر كو بیان كرتے ہیں كہ " لَمْ یَكُنْ لِأَحَدٍ فِیَّ مَهْمَزٌ وَ لاَ لِقَائِلٍ فِیَّ مَغْمَزٌ " كسی كے لیے بھی مجھ میں عیب گیری كا موقع اور حرف گیری كی گنجائش نہ تھی ۔ 
اور پھر عزت و ذلت كے معیار كو بیان كرتا ہوا اس خطبہ كا یہ زندہ و جاوید جملہ " اَلذَّلِیلُ عِنْدِی عَزِیزٌ حَتَّى آخُذَ اَلْحَقَّ لَهُ وَ اَلْقَوِیُّ عِنْدِی ضَعِیفٌ حَتَّى آخُذَ اَلْحَقَّ مِنْهُ " دباہوا میری نظروں میں طاقتور ہے. جب تك كہ میں اس كا حق دلوانہ دوں اور طاقت و ر میرے یہاں كمزور ہے جب تك كہ میں اس سے دوسرے كا حق دلوا نہ لوں ۔ 
پھر اپنے مقام تسلیم و رضا كو مولائے كائنات یوں بیان فرماتے ہیں : " رَضِینَا عَنِ اَللَّهِ قَضَاءَهُ وَ سَلَّمْنَا لِلَّهِ أَمْرَهُ " ہم قضائے الہی پر راضی ہو چكے ہیں اور اُسی كو سارے امور سونپ دیئے جائیں ۔ 
یقیناً یہ جملے بہت ہی جاذب ہیں اور مولائے كائنات علیہ السلام كی عظمت كو بیان كرتے ہیں ۔ جن صفات كو مولائے كائنات نے اپنے لئے بیان فرمایا ہے ان مقامات كا دعویٰ كرنا آنحضرت كے سوا كسی كو بھی زیب نہیں دیتا ۔ 
صرف امیرالمومنین علیہ السلام ایسے دعوے كر سكتے ہیں كہ جب سب خاموش تھے اور كسی میں جرأت كلام نہ تھی تو آپ نے قدم بڑھایا اور تار سكوت توڑ كر گفتگو شروع كی ۔ 
انھیں كی ذات تھی كہ جب سب لوگ حیران و سرگردان تھے تو آپ نور الٰہی كے سہارے آگے بڑھ رہے تھے ۔ 
یہ صرف امام علی علیہ السلام ہی دعویٰ كر سكتے ہیں كہ " میرے نام كا كوئی ڈھنڈورا پیٹنے والا نہ تھا لیكن میں اسلام كی ترقی كے لئے سب سے زیادہ تلاش و كوشش كرنے والا تھا ۔ 
صرف علی علیہ السلام ہی یہ كہہ سكتے ہیں كہ میں پہاڑ كی طرح ثابت قدم تھا جسے فتنے كی آندھیاں اپنی جگہ سے نہیں ہلا سكتی تھیں ۔ 
تنہا آپ ہی فضیلتوں كا وہ سرچشمہ اور عظمتوں كے ایسے پہاڑ ہیں جو یہ كہہ سكتے ہیں كہ میری شخصیت فضیلتوں كے اس درجے پر فائز ہے جس میں كوئی عیب و نقص نہیں نكال سكتا ہے اور نہ ہی كوئی میرے كردار پر انگشت نمائی كر سكتا ہے ۔ اگر كوئی میری اس فضیلت كا منكر ہے تو سامنے آئے ۔ 
وہی اس بات كا دعویٰ كر سكتے ہیں كہ لوگوں كی نظر میں جو ذلیل ہے اور جس كا حق چھین لیا گیا ہے وہ میری نظر میں عزیز ہے اور میں اس كا حق دلوا كر رہوں گا اور لوگوں كی نظر میں جو ظالم كسی كا حق چھین كر عزت دار بنا ہوا ہے وہ میری نظر میں ذلیل ہے اور میں اس سے مظلوم كا حق واپس لے كر رہوں گا ۔ 
اقتباس : سیمای امام علی علیہ السلام در نہج البلاغہ ، تالیف آیۃ اللہ كریمی جہرمی دامت بركاتہ ،ص/۹۰

Thursday / 15 January / 2015