شنبه: 1403/02/1
Printer-friendly versionSend by email
ماه رمضان، سب کے لئے اخوت و بھائی چارہ کا مہینہ
ماہ مبارک رمضان کے متعلق آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی مدظله الوارف کے سلسلہ وار نوشتہ جات (11)

ماه رمضان، سب کے لئے اخوت و بھائی چارہ کا مہینہ

ماہ مبارک رمضان کے متعلق آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی مدظله الوارف کے سلسلہ وار نوشتہ جات (11)

 

ماہ مبارک رمضان میں واقع ہونے والے تاریخی واقعات اور مناسبتوں میں سے ایک عقد اخوت و برادری ہے۔

شیخ مفید (1)کے قول کے مطابق ماہ مبارک رمضان کے بارہویں دن پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اصحاب کے درمیان عقد اخوت قائم کیا، نیزآپ نے اپنے اور علی علیہما السلام کے درمیان بھی عقد اخوت  قائم کیا۔

اسلام اخوّت و بھائی چارہ، برادری ، ہم فکری اور مساوات کا دین ہے جو دنیا والوں کو ایک خاندان کے اعضاء شمار کرتا ہے۔اسلام  رنگ و نسل، فقر و ثروت،حکومت اور دنیاوی امور کو ایک دوسرے پر برتری کا سبب قرار نہیں دیتا۔ اسلام نے لوگوں کے درمیان فاصلوں کو ختم کیا   اور  برتری کا معیار صرف «تقویٰ» کو قرار دیا۔ ایک ایسا معیار  جو ہرگز  غرور و تکبر ، بدسلوکی اور دوسروں سے دوری کا سبب نہیں ہو سکتا۔

عقیدۂ توحید اس دین کا  مرکزی پہلو اور مخلوق خدا کے ساتھ بھائی چارہ اور برادری کا منبع و مأخذ ہے ۔توحید کے عقیدہ سے برھ کر کوئی مادّہ و غذا، کوئی عقیدہ اور کوئی عادت و خصلت بھی انسان کی سعادت اور نیک بختی کے لئے مفید نہیں ہو سکتی۔ قرآن كریم میں ارشاد ہے: «إِنَّ هذِهِ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً واحِدَةً وَاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ»(2)

قرآن نے لوگوں کے درمیان مال و دولت، مقام و منصب، حکومت، تعداد، رنگ و نسل، موازنہ اور مقابلہ کو معیار قرار نہیں دیا۔

عرب اور عجم، کالے اور گورے سب برابر ہیں؛  کیونکہ یہ لوگ قرآن اور انسانی و اسلامی حقوق کے لحاظ سے برابر ہیں۔ انسان کی انسانیت اور آدمیت کا کام ان امور سے وابستہ نہیں ہے۔

قرآن نے لوگوں کے درمیان موازنہ کرتے وقت تقویٰ و عبادت اور ایمان کو فضیلت کا میزان و معیار قرار دیا ہے۔ اسلام اور خدا پر ایمان کا رنگ ایک ایسا رنگ ہے جو ہر کسی کے لئے شائستہ ہے چاہے وہ عورت ہو یا مرد، غنی ہو یا فقیر، ایشیائی ہو یا یورپی، عرب ہو یا عجم۔ اسلام کا رنگ انسانی فطرت کا رنگ ہے جو ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے  اور دوسرے رنگوں کو اس میں حائل نہیں کرنا چاہئے۔  یہ رنگ؛ وطن، قوم و ملت اور زبان کی طرح تفرقہ اور جدائی کا سبب نہیں ہے کیونکہ یہ کسی خاصّ قوم اور کسی خاص ملک کے لوگوں سے مخصوص نہیں ہے۔

اسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا نے حقوق کے لحاظ سے کسی قوم و ملت کو دوسروں پر برتری نہیں دی  گئی اور فلاح و کامیابی کسی ایک ملک یا قوم سے مخصوص قرار نہیں دی گئی، نیز اسلام نے یہ بھی اعلان کیا ہے انسانی کرامت و شرافت کے اعتبار سے سب برابر کے شریک ہیں اور یہ انسانی کرامت کسی رنگ و نسل یا قوم و ملت سے مختص نہیں ہے۔

حلق سے قومیت اور میلت کی آوازیں نکلنا اصل انسانی شرافت و کرامت کے برخلاف ہے۔ نیز یہ صحیح منطق، سچے ادیان اور اسلام کی مقدس تعلیمات کے منافی ہے۔

ایسی آوازوں  نے انسانوں میں صرف نفاق و منافقت، بغض و کینہ اور تفرقہ و جدائی کے بیج بوئے ہیں اور ایسی صدائیں بلند کرنے والوں کو جان لینا چاہئے کہ وہ نفاق و اختلاف کے منادی ہیں۔

اسلام کی تعلیمات دلوں میں محبت و اخوت کے بیج بوتی ہیں اور تعاون و ہمدردی کی طرف انسانیت کی ہدایت کرتی ہیں۔

قرآن مجید نے اس اخوت کا ذکر کیا ہے کہ جو مسلمانوں کو اسلام کے سایہ میں نصیب ہوئی، جس نے اختلافات کا خاتمہ کیا اور مسلمانوں کے دلوں میں الفت کا بیج بویا اور مسلمانوں کو اِعْتِصامِ بِحَبْلِ الله کا حکم دیااور ایک مختصر اور معنی سے بھرپور جملہ«اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ»(3) کے ذریعہ مسلمانوں میں اخوّت و بھائی چارہ ایجاد کیا یا انہیں اخوت و برادری کا پیغام دیا۔ پس اگر لوگوں کے درمیان آپس میں اخوّت و بھائی چارہ نہ ہو تو وہ مؤمن نہیں ہیں۔

اصحاب پیغمبر کے درمیان عقد اخوت

پیغمبر اكرم صلّی الله علیه وآله وسلّم نے اپنی دعوت کے آغاز سے ہی دینی اخوّت پر بہت زور دیا اور بے حد توجہ کی اور آپ اسے مسلمانوں کے زندہ سماج اور معاشرے کا ایک اہم رکن اور اہم ستون قرار دیتے تھے اور اس کے ذریعہ آپ نے بغض و کینہ اور مختلف اقوام اور قبائل میں دیرینہ دشمنی کا خاتمہ کیا۔

پیغمبر اكرم صلّی الله علیه وآله وسلّم نے مکمل ہمبستگی ،اسلامی شعور کے بیدار ہونے اور دوسری حکمتوں کے لئے جو کام انجام دیئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے مہاجرین کے ہر دو افراد کے درمیان عقد اخوت قائم کیا  اور اسی طرح آپ نے مہاجرین و انصار میں سے بھی ہر دو افراد کے درمیان عقد اخوت قائم کیا۔

مہاجرین و انصار میں جن کے درمیان مماثلت پائی جاتی تھی اور جن کے افکار اور نظریات ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے ؛ انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا گیا۔ اور حقیقت میں اس کام سے قبائل اور خاندان ایک دوسرے سے متصل ہو گئے۔

پیغمبر اكرم صلّی الله علیه وآله وسلّم کا یہ اقدام سیاسی و معاشرتی  لحاظ سے اور نومولود اسلامی سماج کے درمیان اتحاد اور ایک دوسرے سے پیوستہ ہونے کے لئے بہت مفید تھا جو عالمی  انسانی سماج  اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے  اخوت و بھائی چارہ  کا باعث بنا۔

بارہا عقد اخوّت

تاریخ اور حدیث کی کتابوں سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ عقد اخوت و مؤاخاۃ مکرر طور پر واقع ہوا۔

1. ایک مرتبہ مہاجرین کے درمیان عقد اخوت قاتم کیا گیا جیسا کہ بحارالأنوار(جدید طبع) ج ۳۸، ب۶۸، ص۳۳۳ میں یہ «ابن عمر» سے روایت کیا گیا ہے۔

2. مدینہ میں داخل ہونے کے موقع پر مدینہ منورہ میں ہی مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت قائم کیا گیا۔جیسا بحارالأنوار، سیرۂ ابن ہشام اور دوسری کتابوں میں نقل ہوا ہے۔

3. اس آیت «اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَة» کے نزول کے وقت ۔جیسا کہ بحار  الأنوارمیں امالی شیخ سے روایت کیا گیا ہے۔

4. «یَوْمُ الْمُباهَلَة» کے موقع پر. جیسا کہ سفینة البحار، ج1، ص12 میں روایت ہوا ہے.

اہم اور دلچسپ موضوع

اس مودّت ساز اور محبت آفرین موقع پر دلچسپ اور اہم بات یہ تھی کہ پیغمبر صلّی الله علیه وآله وسلّم نے حضرت علی بن ابیطالب علیہما السلام کو اپنا بھائی بنانے کے لئے منتخب کیا۔

پیغمبر صلّی الله علیه وآله وسلّم  نے سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور بہت سے مؤرخین اور محدّثین کے بقول پیغمبر صلّی الله علیه وآله وسلّم نے ہم رتبہ لوگوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔

اس بناء پیغمبر صلّی الله علیه وآله وسلّم اپنے لئے بھی کسی بھائی کا انتخاب فرماتے۔ اور ہاں! جو اس مقام کے لائق ہو،وہ کون ہے؟ اور جو پیغمبر صلّی الله علیه وآله وسلّم کے قریب اور(مقام نبوت کے علاوہ) ہم رتبہ  ہو،وہ کون سی شخصیت ہے؟

جی ہاں! علی علیہ السلام کے سوا کوئی اور اس مقام کے لائق نہیں تھا کہ جن کے بارے میں پیغمبر صلّی الله علیه وآله وسلّم  نے فرمایا: «اَنْتَ مِنّی بِمَنْزِلَةِ هارُونَ مِنْ مُوسی اِلاّ اَنَّهُ لا نَبِیّ بَعْدی»(4)

یہ انتخاب، وحی اور خدا کے انتخاب کی بنیاد پر تھا۔ خدا نے پیغمبر صلّی الله علیه وآله وسلّم  اور علی علیہ السلام کے کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا جیسا کہ «لَیْلَةُ المبیت»،(جس رات مشرکین پیغمبر صلّی الله علیه وآله وسلّم کو قتل کرنا چاہتے تھے تو علی علیہ السلام نے اپنی جان ،پیغمبر صلّی الله علیه وآله وسلّم  کی جان پر قربان کی اور آنحضرت کے بستر پر سو گئے) کے موقع پر (اہلسنت کی معتبر کتابوں میں موجود شرح کی روشنی میں)خدا نے جبرئیل اور میکائیل پر کی گئی وحی کے ضمن میں فرمایا:«اَفَلا كُنْتُما مِثْلَ عَلیّ بْنِ اَبی‌طالِب اخَیْتُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ مُحَمَّد»(5)

 

حوالہ جات:

۱۔ مسار الشیعة شیخ مفید ره، ص 28.

2. سوره انبیا، آیه 92؛ بیشک تمہارا دین ایک ہی دین اسلام ہے، اور میں تم سب کا پروردگار ہو لہذا میری عبادت کرو۔

3. سوره حجرات، آیه 10 : حقیقت میں مؤمنین آپس میں بھائی ہیں.

4. اے علی !آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی و پیغمبر نہیں ہو گا۔

5. المسترشد، ص 261؛‌ الغدیر، ج2، ص48؛ عمده ابن بطریق، فصل 30، ص123 و 125؛ خصائص الوحی المبین ابن بطریق، فصل6، ص6؛ کیا تم علی بن ابی‌طالب کی مانند نہیں  ہو (اور ان کی قربانی و فداکاری سے درس نہیں لیتے) اور اسی وجہ سے میں نے انہیں اور محمد صلی الله علیه و آله وسلّم کو بھائی قرار دیا.

Sunday / 3 April / 2022