شنبه: 1403/02/1
Printer-friendly versionSend by email
ولی عہدی کو قبول کرنے کے فوائد اور حکمتیں
(ماہ مبارک رمضان کے بارے میں آیت ‌الله العظمی صافی گلپایگانی مدظله الوارف کے سلسلہ وار نوشتہ جات /۲ )

ماہ مبارک رمضان میں وقوع پذیر ہونے والے تاریخی حوادث اور واقعات  میں سے ایک حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی ولی عہدی اور بیعت تھی۔ شیخ مفید (۱) اور دوسرے مؤرخین کے مطابق یہ واقعہ یکم ماہ مبارک رمضان سنہ ۲۰۱ ہجری کو پیش آیا۔

مأمون الرشید کی جانب سے امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کو ولی عہدی سونپنا ایک سیاسی چال تھی اور امام رضا علیہ السلام بھی اس پیش کش کے جواب میں خراسان کی طرف روانہ ہو گئے اور اس مختصر مقالہ میں ہم امام رضا علیہ السلام کی خراسان کی طرف روانگی کے مقبول ہونے کے بارے میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ ہماری بحث سے خارج ہے ، نیز ہم ان ظریف نکات اور مو شکافیوں میں وارد نہیں ہونا چاہتے اور ہم امام علیہ السلام کے اس عمل پر لب کشائی نہیں کر سکتے چونکہ امام علیہ السلام کا کردار و فرمان اور رفتار و گفتار متواتر روایات اور حکم عقل کی رو سے ہمارے لئے حجت ہے اور امام علیہ السلام جو حکم بھی دیں اسے کسی چون و چرا کے بغیر انجام دینا چاہئے چونکہ امام علیہ السلام کا فرمان درحقیقت  خدا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے۔

کوتاہ فکر ، چھوٹی سوچ اور تنگ ذہن کبھی بھی ان حقائق کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان بزرگ اولیائے الٰہی یعنی محمد و آل محمد ( جو سردار اولیاء ہیں) کے اقدامات کے بارے میں یہی کہہ سکتے ہیں: «عِبادٌ مكرَمُونَ لا یَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهِ یَعْمَلُونَ»(۲)

لہذا ہم اس مختصر تحریر میں اپنی سوچ و فکر کی محدودیت اور اس وسیع و عریض میدان اور بحر بیکراں میں اپنی توانائی کے مطابق اس بیعت کی حکمتوں اور اس کے فوائد کو بیان کریں گے:

* معارف کی نشر و اشاعت کا سنہری موقع

ہارون الرشید کے زمانے میں شدید اختلاف اور حضرت امام موسی بن جعفر علیہم السلام کی طولانی قید کے بعد شیعہ اور اہلبیت علیہم السلام کے طرفدار علنی اور رسمی طور پر اہلبیت علیہم السلام تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے تھے  اور حکومت کی سختیوں  کی وجہ سے اس المی مدرسہ میں تعطیل ہو چکی تھی کہ جس کا افتتاح حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا تھا اور جو عالم اسلام پر خورشید تاباں کی طرح نور افشانی کر رہا تھا۔ پس اگر اس اختلاف میں اور شدت آ جاتی تو علوم آل محمد علیہم الصلوۃ و السلام بتدریج لوگوں کی دسترس سے دور ہو جاتے۔ کتابوں کی تألیفات، ان کی نشر و اشاعت، روایات کی جمع آواری اور نقل روایت پر حکومت نے سخت نظر رکھی ہوئی تھی نیز ان سب امور پر حکومتی جاسوسوں کی بھی دقیق نظر تھی۔ پس اگر امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام یہ اقدام نہ فرماتے تو علوم اہلبیت علیہم السلام میں سے علماء و محدثین کے ہاں اس قدر علم کی بھی اشاعت نہ ہوتی  اور اس قدر علم بھی باقی نہ رہتا۔

آزادی خواہ، شیعوں اور کتاب و سنت کے مکمل نفاذ کے طالب حضرات کے لئے ظاہری آزادی کا وجود بھی ایک گرانقدر اور سنہری موقع شمار ہوتا ہے کیونکہ اس موقع کے دوران اپنے افکار  کی نئے سرے سے نشر و اشاعت کی جا سکتی ہے۔ نیز اس دور میں نوجوانوں اور اس طبقہ کو صحیح توحیدی اور اسلام کے آزادی بخش افکار سے آشنا کیا جا سکتا تھا کہ جنہوں نے ہارون الرشید کے زمانے میں حضرت امام موسی بن جعفر علیہم السلام کی قید کے دوران  بنی عباس کے مکاتب و مدارس میں تربیت حاصل کی تھی۔ اور اس کے ضمن میں ان کے سامنے شیعہ مذہب کو متعارف کروایا جا سکتا ہے اور تمام اسلامی اقوام و ملل تک رسالت اسلام کو پہنچانے کے لئے ایک تحریک اور نہضت برپا کی جا سکتی ہے۔

حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہم السلام کی ولی عہدی اور ظاہری طور پر مأمون کا اہلبیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف مائل ہونے سے دانشوروں، محدثوں اور شیعہ شعراء کے لئے ایک بہترین موقع تھا کہ اس دوران انہوں نے اسلامی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور علوم و فضائل آل محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین  کی تبلیغ و ترویج کے لئے جو اقدامات کئے  ان کی ماضی میں نظیر و مثال نہیں ملتی۔

لیکن اگر امام رضا علیہ السلام کوئی دوسری روش اختیار کرتے اور انقلاب و جنگ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آتے اور مأمون کے مقابلہ میں آ جاتے تو بیشک آپ کو بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرتا پڑتا۔ نیز امام علیہ السلام کی خلافت کے لئے سیاسی اور اجتماعی و سماجی فضا سازگار نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے حق پرستوں کو شکست ہو سکتی تھی اور ہارون الرشید کے زمانے کی بنسبت اختلافات میں اور زیادہ شدت آ سکتی تھی۔ اور اگر امام علیہ السلام یہ راستہ اختیار کرتے تو فکری انقلاب کے لئے یہ سنہری اور بے نظیر موقع بھی ضائع ہو جاتا۔

* بنی ‌عبّاس کا اہلبیت علیہم‌السلام کی حقانیت کا اعتراف کرنا

بنی عباس کے اکثر و بیشتر خلفاء نے اہلبیت اطہار علیہم السلام سے اپنے تمام تر بغض و عباد اور حسد  کے باوجود کہیں نہ کہیں اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے فضائل کو نقل کیا ہے اور وہ ان ہستیوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی وارث  اور صرف انہیں ہستیوں کو ہی مسلمانوں کی رہبری و قیادت اور خلافت کے لائق سمجھتے تھے اور وہ ان کے فضائل و علوم اور صلاحیت کا انکار نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی وہ ان ہستیوں کو نازیبا حرکات و سکنات سے متہم کر سکتے تھے۔ اس بناء پر انہوں نے جاہ و ریاست اور سلطنت کی محبت اور لالچ میں خلافت کو غصب کیا اور اسی وجہ سے وہ ظلم و ستم، خونریزی اور بڑے بڑے مظالم کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے بزرگ سادات کو قید کیا، انہیں قتل کیا، نیز شیعوں کو طرح طرح کی تکالیف دیں۔

ان سب کے باوجود مأمون کے زمانے تک اس بارے میں کوئی عام ، رسمی اور حکومتی اعلان صادر نہیں ہوا۔ بنی عباس کے خلفاء ظاہری طور پر خود کو خلافت کے لئے شائستہ سمجھتے تھے اور خلافت کو اپنا حق شمار کرتے تھے۔

امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کا موضوع ایک رسمی اور حکومتی اعتراف تھا؛ جو کہ ایک سند ہےکہ جس نے بنی امیہ و بنی عباس کی تمام تر تبلیغات اور دعووں پر خطِ بطلان کھینچ دیا تھا۔ اگرچہ مأمون نے اس کے باوجود خلافت سے کنارہ کشی اختیار نہ کی اور خلافت ؛ امام علیہ السلام کے سپرد نہ کی لیکن اس کا یہ اقدام خود اس کے خلاف اس کا اپنا اقرار تھا کہ جس کی وجہ سے اسے مسند خلافت کا غاصب شمار کیا گیا۔

میرے عقیدہ کے مطابق تاریخ میں یہ واقعہ ایک بے مثال اور بے  نظیر فتخ اور کامیابی ہے۔  اور یہ ہماری سوچ سے بڑھ کر امام رضا علیہ السلام کی حقانیت کا اعتراف ہے۔

* مکتب اہلبیت علیہم السلام کے سامنے مختلف ادیان و مذاہب کا خضوع

امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کا خراسان کی جانب سفر کرنا ایک مناسب موقع تھا کہ ائمہ اطہار علیہم السلام کے پاس موجود میراثِ نبوت شمار ہونے والے علوم اور معارف اسلام کی نشر و اشاعت ہو اور وہ علماء اور دانشوروں کی دسترس میں قرار پائیں۔

مأمون کا زمانہ مسلمانوں کے لئے فلسفی مکاتب و اصطلاحات سے آشنائی کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں فلسفی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا اور مأمون نے بھی اس سے استفادہ کیا اور وہ خود ذاتی طور پر اس کی ترویج و تشویق کرتا۔  اور اس کے نتیجہ میں اسلامی عقائد اور مسائل میں فکری اشکلات و شبہات کی تعداد میں اضافہ ہوا  اور دوسری طرف سے دیگر ادیان کے علماء اور مسلمانوں میں بحث اور مناظروں میں بھی  وسعت آ گئی اور یوں مذہبی ابحاث رائج ہو گئیں۔

حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے مسلمانوں کے عقائد کی حفاظت اور ہر قسم کے شک و شبہ اور اعتراض و اشکال کو ردّ کرنے کے لئے مختلف ادیان کے علماء سے مناظرے کئے اور انہیں شکست دیتے ہوئے لاجواب کیا۔ ان بحث مباحثوں اور مناظروں کی تفصیلات تاریخ و حدیث کی کتابوں میں درج ہیں کہ جو آج کے زمانے میں فنّ احتجاج و استدلال اور عقائد کے اثبات کے لئے بہترین سرمایہ شمار ہوتے ہیں اور جن سے تمام علماء و دانشور استفادہ کرتے ہیں۔ اس زمانے میں جب بھی امام علیہ السلام کی خدمت میں فلسفی مسائل کے متعلق کوئی بھی اعتراض و اشکال پیش کیا جاتا تو وہ آنحضرت سے اس کا کافی و شافی جواب سنتے۔

امام رضا علیہ السلام کے علم و فضل نے دنیائے اسلام کو بھر دیا اور آپ کے اس سفر نے علمی ابحاث، دینی معارف،اسلامی  علوم ، عقائد اور فقہ کی تجدید کی اور اسی وجہ سے امام رضا علیہ السلام کو «مجدّد رأس مأة ثانیه» کہا جاتا ہے۔

امام رضا علیہ السلام کی رحلت کے نصف صدی سے بھی کم مدت کے بعد تألیف ہونے والی کتاب «عیون اخبار الرّضا» میں اعلی اور معتبر اسناد سے استفادہ کیا گیا ہے اور اس کتاب نے آنحضرت کے مقام علم و جلالت اور آپ کی بے نظیر عظمت کے چند گوشوں کو کسی حد تک بیان کیا ہے۔ اہلسنت کے بزرگ علماء و مشائخ بھی امام رضا علیہ السلام سے خاص عقیدت رکھتے تھے اور آپ کو بزرگ اولیاء میں شمار کرتے تھے اور انہوں نے بھی آپ کی مدح و ثناء میں کثرت سے اشعار و قصائد لکھے ہیں۔

میری نظر میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی اس روش کے بہترین اور اہم ترین آثار میں سے ایک یہی ہے کہ مکتب اہلبیت علیہم السلام کے دامن سے وابستہ ہو کر دوسرے ادیان و مذاہب نے اس مکتب کی معرفت حاصل کی اور آنحضرت کے علم کے سامنے خضوعانہ طور پر پیشانی رکھی۔

 

حوالہ جات:

۱. مسار الشیعة، ص ۲۷.

۲ . وہ سب اس کے محترم بندے ہیں ، جو اکسی بات پر اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور اس کے احکام پر برابر عمل کرتے رہتے ہیں.»/سوره انبیاء، آیه ۲۶ اور ۲۷۔

Sunday / 11 June / 2017