شنبه: 1403/02/1
Printer-friendly versionSend by email
احیاگر مصلح (کریم اہلبیت امام حسن مجتبی علیہ السلام)
(ماہ مبارک رمضان کے بارے میں آیت ‌الله العظمی صافی گلپایگانی مدظله الوارف کے سلسلہ وار نوشتہ جات /6)

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام جیسے عظیم الشأن اور عالیقدر رہبر و پیشواء کی شخصیت اس سے کہیں عظیم ہیں کہ مجھ جیسا حقیر ان کے بارے میں کوئی مقالہ یا کوئی کتاب لکھے۔

 اہلسنت دانشوروں کی نظر میں

بزرگ شیعہ مؤلفین و مصنفین اور دانشوروں کے علاوہ اہلسنت کے بھی بزرگ علماء نے حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی حیات طیبہ اور آپ کی تاریخ زندگی کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں۔ اور تاریخ، روایات، تفسیر، اخلاق، تراجم اور دیگر علوم کی دسیوں کتب میں انہوں نے  امام حسن مجتبی علیہ السلام کے فضائل و مناقب بیان کئے ہیں؛ منجملہ یہ کتابیں ملاحظہ فرمائیں: «صحیح بخاری»، «صحیح مسلم»، «سنن ترمذی»، «سنن ابن ماجه»، «طبقات ابن سعد»، «سنن ابی داود»، «خصایص نسایی»، «جامع الصّغیر»، «مصابیح السنّة»، «اسعاف الرّاغبین»، «نورالأبصار»، «تذكرة الخواص»، «الاتحاف»، «كفایة الطّالب»، «شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید»، «مرآة الجنان»، «ملتقی الأصفیاء»، «نظم درالسمطین»، «فراید السّمطین»، «سیرة حلبیه»، «اسد الغابة»، «الاستیعاب»، «الاصابة»، «تاریخ الخلفاء»، «الفصول المهمّة» و ....

اب ہم اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے «توفیق ابو علم»  کی كتاب «اہل البیت» کے کچھ حصوں کا ترجمہ پیش کرتے ہیں۔  اہلسنت کی یہ کتاب سنہ 1390 ہجری میں مصر میں شائع ہوئی۔ اور ہم یہاں اسے کچھ اضافات کے ساتھ ذکر نقل کرتے ہیں:

 بے شمار فضائل

شیعہ اور اہلسنت دونوں کا اس عقیدے پر اتفاق ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام اصحاب «كساء» میں سے ایک ہیں کہ جن کی شأن میں  آیۂ «تطہیر»نازل ہوئی۔ نیز متواتر حدیث «ثقلین» میں بھی شامل ہیں اور قرآن کی رو سے آپ کا شمار ان چار افراد میں بھی ہوتا ہے جو پیغمبر صلّی ‌الله علیه و آله و سلم کے ہمراہ «نجران» کے نصاریٰ کے ساتھ مباہلہ کے لئے حاضر ہوئے۔

«اسامة بن زید» نے روایت كی ہے کہ پیغمبر صلّی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: یہ دونوں (حسن اور حسین)، میرے بیٹے ہیں اور میرے نواسے ہیں. خدایا! میں انہیں دوست رکھتا ہوں؛ پس تو انہیں دوست رکھ اور جو انہیں دوست رکھتا ہے تو انہیں دوست رکھ ۔

«عائشه» نے نقل كیا ہے کہ: «اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ كانَ یَأخُذُ حَسَناً فَیَضُمْهُ اِلَیهِ ثُمَّ یَقُولُ: «اللّهُمَّ إنَّ هذا ابْنی وَ اَنَا اُحِبُّهُ فَاَحِبَّهُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُ»

«انس بن مالك» کہتے ہیں: حسن علیه السّلام؛ پیغمبر صلّی الله علیه و آله و سلم کی پاس آئے اور میں نے چاہا کہ انہیں پیغمبر صلّی الله علیه و آله و سلم سے دور کروں تو پیغمبر صلّی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: « وای ہو تم ہر اے انس! تم میرے بیٹے اور میرے ثمرِ حیات کو مجھ سے دور کر رہے ہو. جس نے اسے اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت دی .»

 مكارم اخلاق

امام حسن علیه السّلام نے خانهٔ وحی میں پرورش پائی اور آپ مدرسۂ توحید اور اپنے جد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آغوش لطف و رحمت کے پروردہ ہیں۔

امام حسن علیہ السلام مکارم اخلاق، صفات حسنہ اور نیک سیرت کے لحاظ سے نمونہ تھے اور آپ کی غیر معمولی محبوبیت کی ایک وجہ آپ کا وہی اخلاق کریمہ ہے اور آپ کے انہی اوصاف حمیدہ کی وجہ سے ہر کوئی آپ کی سراہتا ہے اور آپ کی مدح و ثناء کرتا ہے۔

آپ ادب، حِلم، فصاحت، صداقت، سخاوت، شجاعت، تقویٰ، عبادت، زہد، تواضع اور تمام صفات حسنہ و حمیدہ کا مجموعہ تھے اور آپ میں خَلق و خُلق محمدی ظاہر  و آشکار تھا ۔

 عذاب الٰہی کا خوف

حضرت امام حسن علیہ السلام اپنے زمانے کے سب سے زیادہ عابد، زاہد اور فاضل شخص تھے۔ آپ جب بھی حج کا ارادہ کرتے تو پیدل سفر کرتے اور کبھی حج کے سفر کے لئے پا برہنہ جاتے۔ اور جب آپ وضو کرتے تو آپ  کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا اور رنگ زرد پڑ جاتا اور آپ کسی حال میں بھی خدا کے ذکر کو ترک نہ کرتے۔ آپ پارسا ، بردبار اور صاحب فضل تھے اور آپ خوف خدا رکھتے تھے۔

 بے نظیر زہد

امام حسن مجتبی علیہ السلام کے زہد کا یہ عالم تھا کہ ان تمام اسباب و وسائل کو ترک کر دیا تھا کہ جو دنیا کی طرف راغب کریں اور خانۂ آخرت اور پرہیزگاروں کی منزل کی جانب متوجہ تھے اور آپ نے خود بیان فرمایا ہے کہ: «مَنْ عَرَفَ اللهُ اَحَبَّهُ، وَ مَنْ عَرَفَ الدُّنْیا زَهَّدَ فیها، وَ الْمُؤْمِنُ لایَلْهُو حَتّی یَغْفُلَ، اِذا تَفَكَّرَ حَزَنَ»

امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے حکومت و خلافت سے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے لئے قطع نظر کیا۔ امام علیہ السلام جب بھی انسان کی موت اور اس کی منزل کو ذہن میں تصور کرتے تو بے ساختہ رونا شروع کر دیتے اور جب بھی حشر و نشر اور پل صراط سے گذرنے کو تصور کرتے تو گریہ کرتے اور جب خدا کی بارگاہ میں حساب و کتاب کو یاد کرتے تو اس قدر گریہ کرتے کہ بے ہوش ہو جاتے۔

 رحمت الٰہی کا نمونہ

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مانند رحمت الٰہی کا نمونہ اور پیکر تھے ؛  جو ناامید اور غمگین دلوں میں امید کی شمع روش کر دیا کرتے تھے۔ آپ نادار اور لاچار لوگوں سے ملنے جاتے، بیماروں کی عیادت کرتے ، جنازوں میں شرکت فرماتے، مسلمانوں کی دعوت کو قبول کرتے اور آپ کی یہ کوشش ہوئی کہ کہیں کوئی آپ سے رنجیدہ کاطر نہ ہو جائے، آپ کی طرف سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی، آپ فقراء سے ساتھ بیٹھتے اور برائی و بدی کا نیکی سے جواب دیتے۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا حلم

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام حقیقی معنوں میں ایک انسان کامل اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق حسنہ کا کامل نمونہ تھے۔ غصہ سے کبھی آپ پر ہیجانی کیفیت طاری نہ ہوتے اور آپ غصہ کے عالم کوئی کام انجام نہ دیتے اور آپ کا عمل ان آیات مبارکہ کا نمونہ تھے کہ:  «وَ الْكاظِمینَ الْغَیْظَ وَالْعافینَ عَنِ النّاسِ وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنینَ»؛ «وَلا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلاَالسَیِّئَةُ، اِدْفَعْ بِالَّتی هِی اَحْسَنُ»

امام حسن مجتبی علیہ السلام اپنے دشمنوں کی ہر حرکت کا صبر و استقامت اور بردباری سے جواب دیتے یہاں تک کہ اہلبیت علیہم السلام کے ایک خبیت ترین دشمن «مروان حكم» نے آپ کے حلم اور بردباری پہاڑ سے تشبیہ دی ہے۔

امام حسن مجتبی علیہ السلام حلم و بردباری اور عفو و بخشش میں اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرح دنیا والوں کے لئے نمونہ تھے۔ تاریخ نے آپ کے اخلاق کے کچھ نوادرات کو محفوظ کیا ہے اور جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام دنیائے اسلام میں اخلاقیین کے لئے اسوہ و نمونہ اور ادب و اخلاق کے بانی ہیں۔

 لوگوں سے محبت

کریم اہلبیت امام حسن علیہ السلام شیریں بیاں، خوش اخلاق، صاحب حسن معاشرت و الفت تھے اور لوگوں کے محبوب تھے۔ بوڑھے، جوان، اور عام لوگ سب آپ کو آپ کے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے دوست رکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ لوگوں پر عطا و بخشش کرتے چاہے وہ آپ سے درخواست کرتے یا چاہے وہ آپ سے کسی چیز کا تقاضا نہ کرتے۔

آپ نماز صبح کے بعد سورج طلوع ہونے تک تعقیبات انجام دیتے اور پھر لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے اور ان سے الفت و محبت سے پیش آتے اور جب ظہر کی نماز کا وقت ہوتا تو مسجد میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کو علم و ادب کی تعلیم دیتے۔

یہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے فضائل و مناقب کے (بحر بیکراں میں سے ) کچھ ناچیز قطرے تھے اور آپ کے فضائل و مناقب اس کہیں زیادہ ہیں کہ جنہیں بیان کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں ہم کریم اہلبیت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی بارگاہ میں عقیدت کے کچھ اشعار پیش کرتے ہیں۔

آن که حریمش حَرَم کبریا است / خاک درش کعبه اهل وفا است

آن که سراپا همه لطف است و مهر / و آن که دلش منبع فیض خدا است

شخص شرف گوهر بحر کَرَم / و آن‌که رُخش آینه حق‌نما است

اُسوه حلم است و مُدارا و صبر / مظهر بخشایش و صلح و صفا است

عین کمالات و خصال نکو/  معدن ایثار و گذشت و حیا است

آن‌ که پس از شاه ولایت على / مقصد و مقصود ز دو انّما است

آیه تطهیر و فمن حاجّک / سوره‌اى از منقبتش هل اتى است

عالم تفسیر و بطون کتاب / گواه آن کریمه قل کفى است

در کف امرش همه کون و مکان / تابع فرمان جنابش قضا است

ز ابر عطایش همگان بهره‌مند / غم‌زدگان را کرمش غم‌زدا است

همچو نبى صاحب صفح جمیل / مُلتزم عهد الست و بلى است

صاحب این وصف و علامات کیست؟ / کاین همه‌اش قدر و مقام و بها است

سبط مهین حافظ شرع مبین / سیّد خوبان حسن مجتبى است

Sunday / 11 June / 2017