چهارشنبه: 1403/02/5
Printer-friendly versionSend by email
وفات حضرت خدیجہ
آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی کی کتاب ’’رمضان در تاریخ ‘‘ سے اقتباس

 

قال رسول‌الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:

«اُمِرْتُ اَنْ اُبَشِّرَ خَدیجَةً بِبَیْتٍ مِنْ قَصَبٍ لا صَخَبٌ فیهِ وَلا نَصَبٌ»؛(۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: «مجھے حکم ہوا ہے کہ میں خدیجہ کو ایسے گھر کی بشارت دوں کہ جو سونے سے بنا ہوا ہے اور اس میں کوئی غم و اندوہ نہیں ہے»۔

ہجرت سے تین سال قبل اور بعثت کے دسویں سال ماہ مبارک رمضان میں مؤمنہ اور فداکار خاتون امّ المؤمنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اپنی پینسٹھ سال کی بابرکت عمر کے بعد رحلت فرما گئیں۔ شیخ مفید علیہ الرحمۃ کے قول کے مطابق یہ دردناک واقعہ دس ماہ رمضان کو پیش آیا۔(۲)   رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہاتھ سے آپ کو حجون مکۂ مکرمہ میں دفن کیا ۔ آپ کی رحلت کی وجہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قدر محزون اور غمگین ہوئے کہ آپ نے اس سال کو «عامُ الْحُزْن» کا نام دیا ۔ (۳)

حضرت خدیجہ علیہا السلام کی شخصیت

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ گھر اور خاندان انسان کی تربیت کا محیط ہے ؛ جو انسان کی جسمانی و فکری پرورش اور شخصیت پر اثرانداز ہوتا ہے کہ جو انسان کو اصیل ، ثابت قدم اور پائیدار بناتا ہے ۔

ماں باپ اور دودھیال و ننیہالکی جانب سے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا خاندان «جزیرة العرب» کے اصیل اور صاحب شرافت و سیادت سے تھا ۔

خداوند متعال نے چاہا  کہ یہ بے مثل و بے مثال بی بی حرم نبوت اور ولایت و امامت کے گیارہ اختر تاباں کی ماں ہو ۔ آپ عقل و فہم ، ادب و حكمت اوربصیرت و معرفت کے لحاظ سے ممتاز اور نابغہ تھیں ۔ آپ کمال و نبوغ اور فہم و بیس کا  ایسا برجستہ نمونہ تھیں کہ عورتوں اور مردوں میں آپ جیسی ہستی بہت کم ملتی ہے ۔  عفّت، نجابت، طهارت، سخاوت، حسن معاشرت دلسوزی اور مهر و وفا آپ کی برجستہ صفات میں سے ہیں ۔

زمانۂ جاہلیت میں جناب خدیجہ کو طاہرہ  (۴)اور سیّدۂ نساء قریش کہا جاتا تھا (۵)اور اسلام میں آپ ان چارخواتین  میں سے قرار پائیں کہ جو جنت کی تمام عورتوں پر فضیلت اور برتری رکھتی ہیں اور آپ کی عزیز و ارجمند بیٹی کے سوا کسی کو یہ مقام و فضیلت حاصل نہیں ہے ۔(۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے حضرت خدیجہ علیہا السلام ایک عظیم نعمت اور خداوند متعال کی واسع رحمتوں میں سے ایک رحمت تھیں ۔

ایک شوہر کے لئے اور بالخصوص اگر وہ گھر سے باہر اہم سماجی امور میں مصروف ہو اور اس کے عظیم مقاصد ہوں، نیز وہ جنگ اور جہاد کے فرائض بھی انجام دے رہا ہو اور اسے دشمنوں اور مخالفین کی جانب سے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہو تو ایک دلسوز، مہربان، عقل مند، اور ہوشیار بیوی ہی اس کے دل کو آرام اور روح کو سکون فراہم کر سکتی ہے اور اس کی تھکاوٹ اور پریشانیوں کو ختم کرنے اور اس کے لئے استقامت اور ثابت قدمی کا باعث بن سکتی ہے۔

اگر شوہر گھر سے باہر دشمنوں سے برسر پیکار ہو اور اسے دشمن کی طرف سے وحشیانہ حملوں، تکالیف اور اذیتوں کا سامنا ہو اور گھر میں بھی نادان، بد اخلاق، ڈرپوک اور منہ پھٹ بیوی کا سامنا کرنا پڑے کہ جو اسے اس کے ہدف و مقصد سے دور کرے، اس کی سرزنش کرے، جنگ چھوڑ کر دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرے اور کہے کہ ہر دن جاہل لوگ اس کے شوہر پر سبّ و شتم کرتے ہیں، اس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ جس سے وہ تھک گئی ہے  لیکن ان مشکلات کے حل کے لئے اپنے شوہر کی مدد نہ کرے تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ایسی صورت میں شوہر کی مشکلات اور دشواریوں میں مزید  اضافہ ہو جاتا ہے ؛کیونکہ نہ صرف اس کی بیوی مشکلات کو حل کرنے میں اس کی مدد نہیں کرتی بلکہ اپنے غیر منطقی اعمال و افعال (منجملہ بے جا سرزنش اور اعتراض) کے ذریعہ اس کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند متعال کی جانب سے سب سے اہم آسمانی رسالت پر مأمور تھے اور مشرکین اپنی تمام تر توانائیوں ( منجملہ انہوں نے اپنے بہادروں، بدزبانی کرنے والے شعراء، سبّ و شتم کرنے والے اوباش افراد، عورتوں، مردوں، اپنوں اور بیگانوں کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محاذ آرائی کے لئے جمع کیا ہوا تھا) کے ساتھ آنحضرت کے مقابلہ میں کھڑے تھے اور جہاں تک ممکن ہو وہ آپ اور آپ کے اصحاب کو تکالیف پہنچاتے اور برا بھلا کہتے، آپ کے راستے میں کانٹے بچھا دیتے، نماز کے دوران آنحضرت کی توہین کرتے اور  یہاں تک کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب سے تعلقات ختم کر دیئے۔

ان تمام دشمنوں،  مشکلات اور مصائب کے ہوتے ہوئے اگر  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر واپس جاتے اور دیکھتے کہ ان کی زوجہ ( جو قریش کی عورتوں کی سرادر ہیں اور جو صاحب شخصیت اور مال و دولت کے لحاظ سے ملیکۃ العرب  ہیں اور جس نے اپنا تمام مال و دولت اپنے شوہر کے اختیار میں قرار دے دیا ہے  تا کہ وہ اسے راہ خدا میں خرچ کریں اور  اسے فقراء پر خرچ کرتے ہوئے ان کی دستگیری کریں ) انہیں یہ مشورہ دے رہی ہوں کہ : جب آپ کی قوم اور قبیلہ آپ کو اپنا بادشاہ اور امیر بنانے کے لئے تیار ہے تو پھر مناسب ہے کہ آپ بھی ان کے ساتھ سمجھوتہ کریں  ؛ اور ان کے دین اور راہ روش سے کوئی سروکار نہ رکھیں ۔ اور (ان کی مخالفت کرکے ) ہماری پرسکون اور آرام دہ زندگی کو مضطرب اور مشکل نہ بنائیں ؛ اگر ایسی صورت حال ہوتی تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح انہیں قانع کرتے ؟  اور اس صورت میں کون رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم اور روح کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا تھا ؟ بیشک اس صورت میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گھر اور گھر سے باہر سخت مشکلات و موانع کا سامنا کرنا پڑتا ۔

لیکن خدا کا لطف تھا کہ خدا نے دعوت اسلام کی حقانیت کو درک کرنے کے لئے قلب خدیجہ کو اس طرح سے کھول دیا تھا اور آپ کے دل کو اس طرح سے منور اور معرفت و حکمت سے سرشار کر دیا تھا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی بھی گھر میں ایسا کوئی افسوسناک منظر نہیں دیکھا تھا۔

دکتر بنت‌الشّاطی کہتی ہیں: « کیا خدیجہ کے علاوہ کسی اور بیوی میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ اس تاریخی دعوت کے بعد قوی ایمان، کھلی آغوش اور محبت و عطوفت سے اس کا استقبال کرتی کہ جب وہ غار حرا سے آئے تھے اور دل میں اس کی سچائی کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ آنے دیتی اور اسے تسلی دیتی کہ خدا اسے تنہا نہیں چھوڑے گا؟

کیا خدیجہ کے علاوہ اس قدر ناز و نعمت سے پلی ہوئی اور اس قدر احترام اور آسائش میں زندگی بسر کرنے والی کوئی اور خاتون اپنی مکمل رضائیت سے اپنی عالی شان زندگی، بے حد مال و دولت اور توانگری سے منہ موڑ سکتی ہے اور کیا کوئی اور یہ سب چھوڑ کر زندگی کے سخت اور دشوار لمحات میں اپے شوہر کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے تا کہ وہ اپنے اپنے شوہر کی حقانیت پر ایمان رکھتے ہوئے راہ حق میں آنے والی مشکلات اور مصائب میں اس کی مدد کرے؟ نہیں! ہرگز نہیں! صرف خدیجہ ہی ایسی خاتون تھی اور کوئی دوسری خاتون آپ کی طرح نہیں ہو سکتی مگر یہ کہ وہ آپ کے ہم مرتبہ ہو» ۔ (۷)

شہر مکہ ، مکہ کے لوگوں ، ان کی محبت و شفقت اور ان کی جانب سے دعوت توحید کا استقبال کئے جانے کی بجائے خداوند کریم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خدیجہ علیہا السلام عطا کی۔ اور جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں آتے تو آپ آنحضرت کے استقبال کے لئے آگے بڑھتیں ، آپ کے حالت دریافت کرتیں ، آپ کی دلجوئی کرتیں ، آپ کو رحمت و نصرت اور لطف خدا کے بارے میں بتاتے ہوئے آپ کے منور چہرے سے گرد و غبار صاف کرتیں اور قوم کی سرزنش و ملامت کرتے ہوئے آپ کو تسلی دیتیں اور آپ کی دلجوئی کرتیں ۔

ابن‌اسحاق کہتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی قوم کی جانب سے اپنے ردّ یا تکذیب کے بارے میں جو بات بھی سنتے کہ جو آپ کے لئے پریشانی اور فکری بےچینی کا باعث بنی تو خداوند خدیجہ (علیہا السلام) کے ذریعے اسے برطرف کر دیتا ۔ خدیجہ (علیہا السلام) آنحضرت کے لئے سخت باتوں کی سنگینی کو کم کر دیتیں اور آپ کی تصدیق کرتیں ۔ لوگوں کے برتاؤ اور ان کی جانب سے توہین و جسارت کو بے اہمیت  شمار کرتیں ۔(۸)

جی ہاں ! خدیجہ علیہا السلام وہ پہلی خاتون تھیں کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ آلہ و سلم کے سات نماز ادا کی ۔ اسلام قبول کرنے کے لحاظ سے علی بن ابی طالب علیہما السلام (جو بعثت سے پہلے اور بعد میں ہمیشہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہوتے اور جو ایک لمحہ کے لئے بھی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی راہ سے جدا نہیں ہوتے ) کے سواء بندگان خدا میں سے کوئی بھی آپ کی طرح کا سابقہ نہیں رکھتا ۔

خدیجه علیہا السلام نے اپنی دور اندیشی ، حکیمانہ افکار ، فہم و فراست اور عقل و بیشن سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کو قبول کیا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نیک اور درخشاں ماضی ، آنحضرت کا اخلاق ، صداقت ، سچائی ، امانت داری ، کمزوروں کی مدد کرنا ، فقراء کی دستگیری کرنا ، تواضع ، قناعت ، ایثار ، بخشش ، مہمان نوازی اور آنحضرت کی تمام صفات حسنہ جناب خدیجہ علیہا السلام جیسی حکیمہ خاتوں کی نظر میں مجسم تھیں ؛ اور آپ یہ جانتی تھیں کہ اس قدر پر آشوب ، تباہی و فساد اور تاریک ماحول میں یہ اعلیٰ و ملکوتی صفات نبوت کی نشانیاں ہیں ۔

حضرت خدیجہ علیہا السلام ؛ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بخوبی جانتی تھیں کہ آپ باطل سے گریز کرتے ہیں اور جھوٹ سے بیزار ہیں ۔ دوسرے لوگ بھی آپ کو ان صفات سے پہچانتے تھے  اور آپ کو برے ، ناروا اور ناپسندیدہ کاموں سے پاک و منزہ سمجھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو «امین» کا لقب دیا تھا ۔ (۹)  خدیجہ علیہا السلام جسے پہچانتیں تھیں ؛ وہ کبھی بھی زمین و آسمان کے خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دے سکتا ؛ اور ربّ العالمین بھی اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑ سکتا اور وہ جو کچھ کہے وہ حق و حقیقت ہے ۔

اس بناء پر خدیجہ علیہا السلام نے اسلام قبول کرنے میں کسی طرح کا صبر اور شک و تردید نہیں کیا اور آپ اپنے پہلے قدم سے ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی یاور و مددگار بن گئیں اور آپ نے دین خدا کی نصرت اور مدد کے لئے اپنا تمام مال و دولت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اختیار میں دے دیا ۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرح حضرت خدیجہ علیہا السلام بھی مشرکوں اور بت پرستوں کی طرف سے اذیت اور تکالیف سے نہ بچ سکیں۔ عوتوں نے آپ ملنا جلنا چھوڑ دیا اور آپ سے قطع تعلق کر لیا ؛ آپ کو زبان سے زخم اور طرح طرح کے طعنے دیئے ؛ حتی بچے کی ولادت کے موقع پر بھی کوئی عورت آپ کی مدد کے لئے نہیں آئی اور انہوں نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا۔ (۱۰)

لیکن حضرت خدیجه علیہا السلام مستقبل کو دیکھ رہیں تھیں کہ جسے دوسرے لوگ نہیں دیکھ رہے تھے ۔ وہ جانتی تھیں کہ دین محمد حق ہے اور جلد ہی خدائے یگانہ کی عبادت و پرستش بتوں کی پرستش کی جگہ لے لے گی اور خداوند اپنے پیغمبر کی مدد کرتا ہے اور روز بروز ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔

جی ہاں ! اسلام میں جناب خدیجہ علیہا السلام کو وہ مقام و افتخار ملا کہ جو آپ  کی بیٹی سیدۂ نساء العالمین  (۱۱)حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملا ۔ خدا نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسل کو اس بی بی کے ذریعے جاری رکھا ۔  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جوانی کی اوج میں پچیس سال کی عمر میں جناب خدیجہ علیہا السلام سے ازدواج کیا کہ جن کی عمر مبارک چالیس سال تھی ۔ (۱۲)تقریباً چوبیس سال تک حضرت خدیجہ علیہا السلام خانۂ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چراغ اور آنحضرت کی انیس و غمخوار تھیں ۔ یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی پچاس سال کی عمر مبارک اور جناب خدیجہ علیہا السلام کی پینسٹھ سالہ بابرکت عمر  تک کسی اور سے ازدواج نہیں کیا ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آؒلہ و سلم نے حضرت خدیجہ علیہا السلام کے بعد اگرچہ مختلف حکمتوں اور مصلحتوں کے تحت متعدد عورتوں سے ازدواج کیا لیکن ان میں سے کوئی بھی حضرت خدیجہ علیہا السلام کی جگہ نہ لے سکی اور وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر میں جناب خدیجہ علیہا السلام کے فراق اور جدائی سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں کر سکیں  اور پیغمر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان میں سے کسی سے بھی صاحب اولاد نہیں ہوئے اور آنحضرت کی نسل جناب خدیجہ علیہا السلام سے ہی باقی رہی ۔

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی بھی حضرت خدیجہ علیہا السلام کو نہیں بھولے اور آپ ہمیشہ ان کے اخلاق اور صفات کو یاد فرماتے اور آپ ان کے جاننے والوں اور ان کے دوستوں سے نیکی و احسان اور لطف و کرم فرماتے ۔

عائشه کہتی ہے : میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں سے کسی سے اس قدر حسد نہیں کیا کہ جتنا حسد خدیجہ سے کیا ؛ کیونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں بہت زیادہ یاد کرتے تھے اور اگر کوئی گوسفند ذبح کرتےتو  اس میں سے خدیجہ کے دوستوں کے لئے بھیجتے۔(۱۳)

اسی طرح عائشه سے روایت ہوئی ہے کہ: «رسول خدا صلّی الله علیه و آله و سلّم اس وقت تک گھر سے باہر نہ جاتے جب تک جناب خدیجه سلام اللہ علیہا کو یاد نہ کر لیتے اور نیکی و اچھائی سے آپ کی مدح و ثناء فرماتے۔

ایک دن مجھے اس بات پر حسد ہوا اور میں نے کہا: وہ ایک بوڑھی عورت سے زیادہ کچھ نہ تھی اور خدا نے آپ کو ان کے بدلے بہتر عطا کیا ہے۔

پیغمبر صلّی الله علیه و آله و سلّم اس قددر غضبناك ہوئے کہ آپ کے سر کے سامنے کے بال غصہ سے ہل رہے تھے اور پھر آپ نے فرمایا: «نہیں! خدا کی قسم! خدا نے مجھے اس سے بہتر کوئی نہیں دیا، وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب لوگ کافر تھے، اور تب میری تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کر رہے تھے، اور تب میرے ساتھ اپنا مال (راہ خدا میں) خرچ کیا جب لوگوں نے مجھے محروم کر دیا اور خدا نے ان سے مجھے اولاد عطا کی اور دوسری عورتوں سے محروم فرمایا » ۔ (۱۴)

انس بن مالك نے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلّی الله علیه و آله و سلّم نے فرمایا: «کائنات کی بہترین عورتیں مریم بنتِ عمران ، آسیه بنت مزاحم ، خدیجه بنت خُوَیْلِد اور فاطمه بنت محمّد صلّی الله علیه و آله و سلّم ہیں» ۔ (۱۵)

ابن عبّاس سے روایت ہوا ہے کہ: پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور فرمایا : کیا تم لوگ جانتے ہو کہ یہ کیا ہے ؟  عرض كیا: خدا اور رسول خدا بہتر جانتے ہیں ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : «جنت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجه بنت خویلد ، فاطمه بند ،  مریم بنت عمران اور آسیه بنت مزاحم ـ زوجۂ فرعون ـ ہیں» ۔ (۱۶)

«صحیحین» میں عائشه سے روایت ہوئی ہے کہ: «پیغمبر صلّی الله علیه و آله و سلّم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو جنت میں ایسے گھر کی بشارت دی کہ جہاں کوئی شور و شرابا اور رنج و زحمت نہیں ہے » ۔ (۱۷)

صحیح مسلم میں روایت ہوئی ہے کہ : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : «جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا : «یا رسول الله! اب خدیجہ آئیں گی اور ان کے پاس کھانے اور پینے کا ایک برتن ہے ۔ جب وہ آئیں تو انہیں ان کے پروردگار  کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہیں اور  انہیں جنت میں ایک گھر کی بشارت دیں » ۔(۱۸)

سیرهٔ ابن‌ ہشام میں روایت ہوئی ہے کہ : جبرئیل ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور کہا: «خدا کی طرف سے خدیجه کو سلام کہیں » ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

«یا خَدیجَةٌ! هذا جِبْریلُ، یُقْرِئُكِ السَّلام مِنْ رَبِّكِ. فَقَالَتْ خَدیجَةُ : أَللهُ السَّلامُ وَمِنْهُ السَّلامُ، وعَلی جِبْریلَ السَّلامُ»؛(۱۹)

«اے خدیجه! یہ جبرئیل ہے کہ جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر سلام بھیج رہا ہے ۔ پس خدیجہ نے عرض کیا : خداوند سلام ہے ، اور اس کی جانب سے سلام ہے اور جبرئیل پر سلام ہو » ۔

نسائی اور حاكم نیشاپوری کی روایت کی رو سے حضرت خدیجه علیہا السلام نے کہا :

«إِنّ اللهَ هُوَ السَّلامُ وَعَلی جِبْریلَ السَّلامُ، وَعَلَیْکَ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللهِ»؛(۲۰)

«بیشک خداوند، سلام ہے ،  جبرئیل اور آپ پر خدا کا سلام ، رحمت اور برکات ہوں » ۔

حضرت خدیجه علیہا السلام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد ہمیشہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعظیم کرتی تھیں اور آپ کی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں۔

حضرت خدیجہ علیہا السلام کے فضائل اور اخلاقی کرامات بہت زیادہ ہیں ۔ ان کے بارے میں مزید جاننے کے لئے کتب تاریخ ، حدیث اور تراجم کی طرف رجوع فرمائیں ۔

سَلامُ الله عَلَیْها وَعَلى بَعْلِها رَسُولِ اللهِ‌  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلام وَ عَلَى ابْنَتِها سَیَّدَةِ  نِساءِ الْعالَمینَ  وَ عَلى صِهْرِها عَلِیٍّ  أَمیرِ  الْمُؤْمِنینَ  وَ سَیِّدِ  الْمُسْلِمینَ  وَ عَلى أَبْنائِهَا الْأَئِمَّةِ الطّاهِرینَ ‌ علیہم السلام . اَللّهمَّ اجْعَلْنا فی زُمْرَتِهِمْ وَأَرْزُقْنا مُرافَقَتَهُمْ وَشَفاعَتَهُم وَأَكْرِمْنا بِمُتابَعَتِهِمْ بِحَقِّهِمْ یا أَرْحَمَ الرّاحِمینَ.

 

 

حوالہ جات :

۱ ۔ ابن‌هشام، السیرة‌النبویه، ج1، ص241؛ احمد بن حنبل، مسند، ج1، ص205؛ طبرانی، المعجم‌الکبیر، ج23، ص10؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص184.

۲ ۔ مفید، مسارالشیعه، ص22 - 23.

۳ ۔ ابن‌حجر عسقلانی، الاصابه، ج8، ص103 ؛ حسینی کجوری، الخصائص‌الفاطمیه، ج2، ص 147 ؛  محدث قمی، منتهی‌آلامال، ج1، ص136 ؛  سیلاوی، الانوارالساطعه، ص386 – 389.

۴ ۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1817 ؛ ابن‌اثیرجزری، اسدالغابه، ج6، ص78.

۵ ۔ بیهقی، دلائل‌النبوه، ص22؛ ابن‌کثیر، البدایة و النهایه، ج‌3، ص15.

۶ ۔ طبرانی، المعجم‌الکبیر، ج‌22، ص402 ؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1821 ـ 1823 ؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ج3، ص104.

۷ ۔ ر.ك: ابوعلم، اهل‌البیت ^، ص102، نقل به معنا.

 ۸ ۔ ابن‌هشام، السیرةالنبویه، ج1، ص240؛ ابن‌اثیر جزری، اسدالغابه، ج6، ص82.

۹ ۔  ابن‌هشام، السیرة‌النبویه، ج1، ص183، 197، بلاذری، انساب‌الاشراف، ج1، ص99 – 100 ؛  یعقوبی، تاریخ، ج1،‌ ص19؛ ماوردی، اعلام‌النبوه، ص212 – 213؛ طبرسی،  اعلام‌الوری، ج1، ص 145؛ فخر رازی، اعلام‌النبوه، ص 74، 77؛ مقریزی، امتاع‌الاسماع، ج1، ص19، 91؛ ج2، ص146.

۱۰ ۔ کوفی، الاستغاثه، ج1، ص70؛ طبری امامی، دلائل الامامه، ص77 – 78؛ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، ج2، ص524 – 525؛ حلی، العدد‌القویه،‌ص223؛ مجلسی، بحارالانوار، ج16، ص80 – 81؛

۱۱ ۔ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1821 ـ 1823؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ج‌3، ص‌104.

۱۲ ۔ ابن‌سعد، الطبقات‌الکبری، ج‌8، ص17، 216 – 217؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج1، ص98 – 99؛ طبری، تاریخ، ج2، ص34؛‌ابن‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج3، ص194؛ ابن‌اثیر جزری، اسد‌الغابه، ج1، ص23.

۱۳ ۔ احمد بن حنبل، مسند، ج‌6، ص202؛ بخاری، صحیح، ج‌4، ص230 ـ 231؛ ج7، ص‌76؛ مسلم نیشابوری، صحیح، ج‌7، ص133 ـ 134؛ ابن‌اثیر جزری، اسدالغابه، ج 6، ص84.

۱۴ ۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1823 ـ 1824؛ ابن‌جوزی، المنتظم، ج3، ص18؛ ابن‌اثیر جزری، اسدالغابه، ج‌6، ص84 ـ 85.

۱۵ ۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1822؛ ابن‌اثیر جزری، اسدالغابه، ج6، ص83.

۱۶ ۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1822؛ ابن‌اثیر جزری، اسدالغابه، ج‌6، ص83.

۱۷ ۔ بخاری، صحیح، ج2، ص203؛ ج4، ص230 – 231؛ مسلم نیشابوری، صحیح، ج7، ص133. اس حدیث کی مانند دوسری احادیث اہلسنت کی دیگر کتب میں ذکر ہوئی ہیں ۔ ر.ك: یعقوبی، تاریخ، ج2، ص35؛ ابن‌اثیر جزری، اسدالغابه، ج2، ص83 ـ 84؛ ابن‌حجر عسقلانی، الاصابه، ج8، ص101.

۱۸ ۔ مسلم نیشابوری، صحیح، ج7، ص133.

۱۹ ۔ ابن‌هشام، السیرة‌النبویه، ج‌1، ص‌241؛ ر.ک: اربلی، كشف‌الغمه، ج2، ص136.

۲۰ ۔ نسائی، فضائل‌الصحابه، ص75؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج2، ص138.

Monday / 11 April / 2022