جمعه: 1403/01/31
Printer-friendly versionSend by email
امام صادق علیه السلام کی علمی تحریک سے مبہوت دنیا
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت سے آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی قدس سرہ کے نوشتہ جات سے اقتباس

بسم الله الرحمن ارحیم

حضرت امام صادق علیہ السلام نے دوسری صدی ہجری کے پہلے حصہ میں ایک ایسے مدرسہ کا افتتاح کیاکہ اسلام میں اس زمانے تک اس کا کوئی سابقہ نہیں تھا اور اس کے بعد بھی اس جیسے مدرسہ کی کوئی نظیر و مثال نہیں ملتی۔ وہ امام صادق علیہ السلام کا مدرسہ و مکتب ہی تھا؛ جس نے دنیا کو علوم قرآن، فقہ، کلام، کیمیا وغیرہ کے عظیم علماء سے نوازا۔

شیعہ فقہ کہ جس کے ضمن میں ہزاروں قانونی و تعلیمی شقیں ہیں نیز اس میں علمی اسلامی اخلاق کے آئین ہیں۔ ان میں سے اکثر و بیشتر یا تقریباً تمام موارد میں امام صادق علیہ السلام کے بے پایان علوم کے مقروض ہیں۔

حج جیسے احکام میں (جو اسلام کے عظیم ترین فرائض میں سے ہے اور جس کے فلسفہ کے ضمن میں اعلٰی حکمتیں موجود ہیں)دنیائے اسلام امام صادق علیہ السلام کے بحر العلوم سے مسیفیض ہوئی اور ابو حنیفہ کے بقول یہ سب امام جعفر صادق علیہ السلام کے طفیل ہیں۔ اہلسنت کی کتابوں میں سے صحیح مسلم میں امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث روایت ہوئی ہے کہ  جس سے احکام حج کی چارسوشقیں مأخوذ کی گئی ہیں  اور اہلسنت اس کی پیروی کرتے ہیں۔

جی ہاں!اس زمانے میں اسلامی ممالک کی سیاسی صورت حال کی وجہ سے حضرت امام صادق علیہ السلام کو بہترین فرصت میسر آئی کہ آپ سب سے بڑی علمی نہضت کی قیادت فرمائیں اور ایک ایسے مدرسہ کا قیام عمل میں لائیں کہ جس میں اسلام کے سب سے مشہور و معروف علماء  آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے ہوئے احادیث اخذ کریں اورآپ سےتعلیم حاصل کریں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے علوم تمام ممالک اور اسلام کے تمام علمی حلقوں پر محیط تھے۔ عراق، حجاز، خراسان اور شام کے علماء نے آپ سے علم حاصل کیا۔ علمی مشکلات اور اسلامی مسائل کے حل کے لئے صرف امام صادق علیہ السلام ہی حلال مشکلات تھے۔

جو بات زیادہ قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام  کی رہبری و قیادت اسلامی علوم میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ مختلف قسم کے علوم جیسے علم نجوم، علم ہیئت، ریاضی، طب، تشریح، معرفۃ النفس، کیمیا، علم نباتات اور دوسرے علوم میں بھی آپ نے شاگردوں کی تربیت کی کہ جو ان علوم میں مشہور و معروف اور اپنی مثال آپ  ہیں۔صفحۂ تاریخ میں باقی رہ جانے والی آپ کی کتابیں، مضامین و مقالات اور احادیث مسلمانوں کی کتابوں کو زینت بخشتی ہیں، جیسے کتاب ’’توحید مفضل‘‘، رسالۂ  اہلیلجہ، ملحدین کے ساتھ آپ کے مناظرہ۔یہ سب اس بات کے شاہد ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا مدرسہ و مکتب ایک یونیورسٹی کی مانند تھا کہ جس میں مختلف علوم کے شعبہ جات تأسیس ہوئے  اور ہر شعبہ نے اپنے مخصوص علوم کے متعلق درس،مباحثہ اور تحقیق پر کام کیا۔

 

مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جو علوم مسلّم طور پر تدریس فرمائے ان میں سے ایک علیم کیمیا تھا اور آنحضرت کی عظیم الشأن یونیورسٹی سے جابر بن حیان جیسے غیر معمولی شاگرد فارغ التحصیل ہوئے ۔ اگر ہم جابر بن حیان کے زمانے سے اب تک صرف انہی نتائج کے بارے میں تحقیق و جستجو  اور علمی بحث کرتے اور ان سے استفادہ کرتے جو اس شخصیت نے امام صادق علیہ السلام حاصل کئے  اور اسی طرح اگر ہم نے ایسے دوسرے علوم حاصل کئے ہوتے کہ جن کی آج کے متمدن  اور ترقی یافتہ سماج کو ضرورت ہے تو ہم مادی دنیا میں بھی مغرب ،یورپ اور امریکہ کے محتاج نہ ہوتے کیونکہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ اسلام اور اس کے عالی اصولوں اور علماء کی کوششوں کی برکات کا نتیجہ ہے۔

 

امام صادق علیہ السلام کے شاگرد اسلامی علوم، طب، تشریح، علم نجوم، علم ہیئت، علم فلکیات، ماحولیات، طبیعیات، ریاضیات، کیمیا، فلسفہ، منطق، اخلاق، تاریخ، ادب، شعر، معرفۃ الحیوان، علم نباتیات،اسلحہ سازی کی صنعت اور ان کے علاوہ دوسرے علوم کے ماہر تھے۔

جابر بن حیان وہی شخص ہے کہ جس نے سب سے پہلے علمی تجربات، اشیاء کی مقدار کو معین کرنے کے لئے میزان استعمال کئے اور انہوں نے ایسی چھوٹی چھوٹی مقداروں کو معین کیا کہ جنہیں ہمارے زمانے میں حساس اور دقیق میزان کے بغیر معین نہیں کر سکتے اور چھ سو سال بعد یورپ میں کیمیا کے علماء نے اپنے تجربات میں ان میزان سے استفادہ کیا۔

یہ وہی دانشور ہے جس نے  دو عناصر کے درمیان اتحاد کے متعلق برطانیہ کے مشہور ماہر طبیعیات، ماہر کیمیا اور طبیعت شناس جان ڈالٹن(Jon Dalton) کے نظریہ کو  اپنی کتاب (المعرفة بالصفة الالهیة و الحکمة الفلسفیة)دس صدیاں پہلے واضح طور پر بیان کیا ہے اور اس نظریہ کو وضع کرنے والے ’’جابر بن حیان‘‘ ہیں نہ کہ ’’جان ڈالٹن‘‘۔

 

جی ہاں! حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے وہی جابر بن حیان ہیں کہ جن کے کارناموں میں سے  ایک کارنامہ  ( جو ان کی علمی و فکری مہارت و استعداد اور صلاحیت کو ثابت کرتا ہے) (Optical pencil) کی ایجاد ہے جس کی تحریر کو تاریکی میں پڑھا جا سکتا ہے، اہمیت کی حامل کتابوں کو لکھنے کے لئے اسی سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

اس مکتب کا ہر شاگر انفرادی طور پر بھی اس عظیم مکتب کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ صرف شیعہ دانشور ہی اس مدرسہ اور یونیورسٹی کی عظمت کا اعتراف نہیں کرتے بلکہ مکتب اہلبیت علیہم السلام کی مخالفت کرنے والے بڑے بڑے دانشوروں نے بھی اس مدرسہ کی عظمت کا اعتراف کیا اور سب نے امام صادق علیہ السلام کے اعلم و افقہ اور برحق ہونے کو بیان کیا ہے۔ حنفیوں کے امام ’’ابوحنیفہ‘‘ کہتے ہیں: «مَا رَأَیْتُ أفقَه مِنْ جَعْفَر بْنِ مُحَمَّد؛ میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ فقیہ کوئی نہیں دیکھا »

نجاشی نے اپنی کتاب رجال میں احمد بن عیسای اشعری سے نقل کیا ہے  کہ وہ کہتے ہیں:میں علم حدیث کی طلب میں کوفہ گیا  اور وہاں حسن بن علی وشا کی خدمت میں پہنچا اور ان سے کہا: مجھے علاء بن زرین اور ابان بن عثمان احمر کی کتاب دیں تا کہ میں اس سے نسخہ تحریر کروں۔ انہوں نے مجھے وہ دونوں کتابیں دیں۔

 میں نے  کہا: روایت کی اجازت بھی دے دیں۔

 فرمایا: خدا تم پر رحمت کرے ، تمہیں کس قدر جلدی ہے ، انہیں لے جاؤ اور لکھو اور پھر اسے میرے پاس لے کر آؤ اور مجھے سناؤ تا کہ میں سنوں اور اس کے بعد تمہیں روایت کی اجازت دوں گا۔

میں نے کہا: میں  آئندہ زمانے کے واقعات سے مطمئن نہیں ہوں۔

حسن بن وشا نے کہا: حیرت ہے! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حدیث کے ایسے چاہنے والے ہیں تو میں اس سے زیادہ جمع کرتا۔ میں نے مسجد کوفہ میں ۹۰۰ شیوخ کو درک کیا اور سب کے سب یہ کہتے تھے: مجھ سے جعفر بن محمد نے حدیث بیان کی ہے۔

واقعاً یہ کیسا عظیم مدرسہ اور یونیورسٹی تھی کہ جس نے موافقین اور مخالفین سبھی کو حیرت و تعجب میں مبتلا کر دیا اور زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ معلوم ہوا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بارہا فرماتے تھے:میری عترت اور میری اہلبیت  انہی مقامات اور علوم و درجات کے لئے تھی  کہ جس کے یہ اہل ہیں۔ لیکن افسوس کہ سیاست کی وجہ سے اہلبیت علیہم السلام کی طرف رجوع کرنے کو ترک کر دیا گیا یہاں تک کہ بخاری جیسے شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک بھی روایت نقل نہیں کی اور شاعر کے بقول:

قَضِیَّةٌ أشْبَهَ بِالمرْزِئَةِ * هذا البُخاریّ إمامُ الفِئَةِ

بِالصَّادِقِ الصِّدِّیقِ ما إحتجَ فی * صَحیحِهِ وَ احتجّ بِالمرجِئَة

إنَّ الإمَامَ الصَّادِقَ المجْتَبی * بِفَضْلِهِ الآی أتَت منبئة

أجَلّ مِنْ فی عَصْرِه رُتْبَة * لم یَقْتَرِفْ فی عُمْرِه سَیِّئَة

قَلامة مِنْ ظفر إبهَامِه * تَعْدِلُ مِنْ مِثْلِ البُخاری مِئَة

اس مکتب، قیمتی خزانے اور ان معارف کی قدر کریں اور سب اس مدرسہ و مکتب اور یونیورسٹی میں زانوئے ادب تہہ کریں اور مثل سابق حضرت امام جعفر و صادق علیہ السلام کی شہادت ک ے موقع پر مجالس عزاء کا انعقاد کریں اور بہترین انداز سے ان ایّام کی تجلیل و تکریم کریں ۔

Wednesday / 25 May / 2022