جمعه: 1403/01/31
Printer-friendly versionSend by email
چودہ سو سالہ مظلومیت (آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی مدظلہ الوارف کی تحریر)

ایک ہزار چار سو سال سے امیر المؤمنین مولی الموحدین حضرت علی بن ابی طالب علیہما ‌السلام کی جامع الأطراف شخصیت کے بارے میں دنیائے علم کے نوابغ اور مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے کم نظیر برجستہ افراد آپ کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ۔ آپ کے وجود کے مختلف پہلؤوں ، آپ کے فضائل و مناقب ، مکارم اخلاق اور آپ کی الٰہی صفات کے بارے میں ہزاروں کتابیں اور رسالے لکھے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود اب بھی یہ آپ کے فضائل و مناقب کے بحر بیکراں میں ایک ناچیز قطرے سے زیادہ نہیں اور یہ ایسے مسافروں کی طرح ہیں کہ جو فضا میں مسلسل  پرواز کر رہے ہوں لیکن انہیں اپنے سفر کا کوئی اختتام دکھائی نہ دے رہا ہو ۔

اس دنیا میں مولائے کائنات امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی زندگی طولِ زمان کے اعتبار سے تریسٹھ (۶۳) پر مشتمل تھی لیکن عرض اور کیفیت کے لحاظ سے تریسٹھ (۶۳) ملین  سال سے بھی کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے ۔

انسان کی زندگی کو طولانی عمر شرف و اہمیت نہیں دیتی ہے بلکہ انسانی حیات اعلیٰ انسانی خصائص اور جمالِ آدمیت سے باشرف اور اہم ہوتی ہے ۔

لازم ہے کہ (ہمارے ) عزیز جوان ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جوانی کے دور کو اپنے لئے نمونہ اور اسوہ قرار دیں ؛ حضرت علی علیہ السلام کی نوجوانی اور جوانی میں ایسے بہت سے امور ہیں کہ جو اعلیٰ و ارفع انسانی مقامات ، سیر و سلوک ، ایمان ، مقاومت اور  استقامت کی طرف حرکت کرنے والے جوانوں کی تشویق کرتے ہیں ۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نوجوان اور جوان تھے کہ جب وہ   جہاد کے میدان اسلام کا دفاع کرنے کے لئے فداکارانہ طور پر بہادی اور دلیری سے اس زمانے کے بڑے بڑے شجاعوں سے نبرد آزما ہوتے تھے اور انہیں میدان جنگ میں دھول چٹاتے تھے ۔

جب آپ نے عزوۂ بدر ، احد ، احزاب اور دوسرے غزوات میں شرکت کی تو اس وقت آپ جوان تھے ۔ جوانی کے عالم میں ہی آپ لیلۃ المبیت (شب ہجرت ) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و  آلہ و سلم کے بستر پر سوئے کہ جس رات کفار نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا ۔ جب آپ نے خدا   کے حکم پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میدانِ مباہلہ میں شرکت کی تو اس وقت بھی آپ جوان ہی تھے ۔  اور جب آپ نے رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی عطا کی اور آپ کی شان میں یہ آیت «إنَّمَا وَلیُّكُمُ الله «  نازل ہوئی تو اس وقت بھی آپ جوان ہی تھے ۔ جب آپ اپنا طعام فقیر و یتیم و اسیر کر دے رہے تھے ، اور انہیں خود پر مقدم کر رہے تھے تو اس وقت بھی آپ جوان ہی تھے ۔ جوانی کے عالم میں آپ اپنے دن روزہ داری اور راتیں تہجد و عبادت اور شب زندہ داری میں بسر کرتے تھے ۔

نوجوانی اور جوانی کے عالم میں آپ کا کوئی ایسا دن نہیں گذرا ہو گا کہ جب آپ خدا پسندانہ فضائل و مناقب اور اعمال و افعال میں مشغول نہ ہوں ۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی نوجوانی اور جوانی کی حیات سب جوانوں کے لئے اسوہ اور نمونہ ہونی چاہئے ۔ علی علیہ السلام سے نقل ہونے والے بہت سے سوابق و مناقب آپ کی جوانی کے عالم سے متعلق ہیں ۔

آپ جوان تھے لیکن اگر آپ کے ایمان کو بزرگ صحابہ کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو آپ کا ایمان ان سب کے ایمان پر برتری رکھتا ہے  ، بلکہ اگر آپ کے ایمان کو ان کے ایمان کے ساتھ تولا  جائے تو آپ کا ایمان ان سب کے ایمان سے سنگین اور وزنی تھا ۔ اور علوی کلام کے علاوہ کس کے کلام  میں لعل و مرجان کے گوہر یگانہ دستیاب ہو سکتے ہیں  ۔ جی ہاں ! امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب تصورات سے کہیں بلند وبالا ہیں۔ 

 پیغمبر اكرم صلّی‌الله علیه و آله فرماتے ہیں : »  إِنَّ اللهَ تَعَالَى جَعَلَ لِأَخِی فَضَائِلَ‏ لَا تُحْصَى « (۲) خداوند متعال نے میرے بھائی علی (علیہ السلام ) کے لئے ایسے فضائل قرار دیئے ہیں کہ جنہیں حساب نہیں کیا جا سکتا ۔ خدا کے علاوہ  کوئی بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے فضائل کو احصاء نہیں کر سکتا ۔

 ایک دوسرے مقام پر بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

 ’’ لَوْ لَا أَنْ تَقُولَ طَوَائِفُ مِنْ أُمَّتِی مَا قَالَتِ‏ النَّصَارَى‏ فِی‏ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ لَقُلْتُ فِیكَ مَقَالَةً تَتَبَّعُ أُمَّتِی آثَارَ قَدَمَیْكَ فِی التُّرَابِ فَیُقَبِّلُونَه‏ ‘‘ (۳) ؛

اگر میری امت میں سے ایک گروہ آپ کے بارے میں وہی کچھ نہ کہتا کہ جو نصاریٰ عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کہتے تھے تو میں تمہارے بارے میں ایسی چیزیں بیان کرتا کہ یہ امت خاک پر پڑے تمہارے قدموں کے نشان کی بھی پیروی کرتی اور اسے چومتی ۔

 جب خلیل ابن احمد سے پوچھا گیا :

’’ مَا تَقُولُ فِی شَأنِ الإمامِ عَلِیّ بنِ ابی‌طالب ‘‘

آپ علی بن ابی طالب (علیہما السلام ) کی شان میں کیا کہیں گے ؟

انہوں نے تاریخی موقعیت ، حق و باطل کے درمیان جنگ و مبارزہ اور باطل پر حق کی فتح کے بارے میں کہا :

’’ مَا أقُولُ فى حَقِّ إمْرِءٍ كَتَمَت فَضَائلَهُ‏ اولیائُهُ خَوْفاً وَ كَتَمَتْ مَنَاقِبَهُ أعْداؤُهُ حَسَداً ثُمَّ ظَهَرَ مِنْ بَیْنِ الْكَتمَیْنِ مَا مَلَأَ الخَافقَیْنِ ‘‘ (۴)

انہوں نے کہا : میں اس شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس کے دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے ان کے فضائل و مناقب کو چھپایا اور دشمنوں نے اپنی دشمنی کی بناء پر ان کے فضائل کو چھپایا ۔

 پھر خلیل بن احمد کہتے ہیں کہ ان دونوں خی طرف سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب کو چھپانے کے باوجود ان کے فضائل اس قدر ظاہر و آشکار ہوئے جو کائنات میں مشرق و مغرب پر چھا گئے ۔

اور اسی طرح شافعی کہتے ہیں :

أنَــا عَبْــدٌ لِلْـــفَتی

أنْزِلَ فِیهِ ’’ هَلْ أتی ‘‘

ہم اس مقالہ کے آخر میں چند اشعار ذکر کرتے ہیں :

یقولون لی فضِّـل علیّـاً علیـهم

فلست أقول التبر أعلى من الحصـا

ألم تر انّ السیـف یزرى بحــدّه

مَقالُک هذَاالسَّیف احدى مِنَ العصا

إذا أنا فضلّتُ علیّـاً علـــیهم

أکُـن للّذی فَضَّـلتُه متنقّصــاً (۵)

 

 

 حوالہ جات :

۱- سوره مائده، آیه : ۵۵

۲- مأة منقبة من مناقب امیرالمؤمنین ، ابن شاذان ، صفحه : ۱۷۷

۳- كتاب سلیمان بن قیس هلالی ، جلد ۲، حدیث ۵۸

۴- تنقیح المقال مامقانی، جلد ۱، بیان خلیل بن احمد فراهیدی نحویّ معروف

۵- ریاض العلماء اصفهانی، جلد ۵، صفحه : ۵۰۴

Wednesday / 24 July / 2019