پنجشنبه: 1403/02/6
Printer-friendly versionSend by email
تیونس کی الزیتونه یونیورسٹی کے سابق چانسلر کی جانب سے آیت الله العظمی صافی گلپایگانی کے اقدام کی ستائش
تیونس کی الزیتونه یونیورسٹی کے سابق چانسلر کی جانب سے آیت الله العظمی صافی گلپایگانی کے اقدام کی ستائش

بسم الله الرحمن الرحیم

السلام علیكم ورحمة الله وبركاته أیّها الشیخ الجلیل آیة الله الصافی 

لقد وصلتنی رسالتك القیّمة، التی فحواها إكبارك لما قام به رئیس المحكمة الدستوریة النمساویّة السید كریستوف غرابنفاتر من إبطال حكم المحكمة الجائر الذی كان قد منع المسلمات من حقّهن فی ارتداء الحجاب، وشكرك لرئیس المحكمة على هذا العدل والنصرة للحق، وإنّنی بدوری أشكرك على هذه الهمة وعلى هذا الاهتمام بشؤون المسلمین فی العالم الغربی، فأرجو من الله ان یتقبّل عملك وسعیك فی الصالحین وأن ینعم علیكم بالخیر والعافیة، وأن یمدّكم الله بصحة البدن ووفرة العقل، وكمال الحكمة، فإن الأمة الإسلامیة محتاجة فی هذا الزمان، المضطرب أوضاعه، المتلاطم أمواجه، إلى مزید من الحكمة، والتبصر فی سعیها إلى الله سبحانه وتعالى، والاجتماع على الكلمة، ونبذ الفرقة وترك الأوهام، وصدق النوایا، والسعی إلى الخیر، فإنّه بضاعتنا ومدّخرنا وموردنا و مصرفنا فی هذه الدنیا-لو كنّا نعلم-وسبیلنا للنجاة فی الآخرة، وإنّ الأمة الإسلامیة عاقدة آمالها على علمائها، الذین الواجب فی حقّهم أن یكونوا فی مستوى ما ترجوه الأمة منهم، ان یطبّبوا أدواءها، ویبرئوا جراحها، ویجمعوا النّاس برشدهم على العمل الصالح المفید، وعلى حسن الظنّ بالخلق، مسلمین وغیرهم، فإنّه لیس شیء أعظم فی التراحم والتودّد، وأدعى إلى الإلف والتحابب من حسن الظنّ، وإنّ الأمة قد عانت كثیرا من التخوّن والتشكیك، والاتهام بالتضلیل والفسوق والنفاق وإنّه لم یكن فی أمّة فی سالف أزمانها، أو حاضرها، من التشتت والهوان والضعف وانحدار الهمة، وغیاب الإرادة، والتخلّی عن المسؤولیة، كما هو حال الأمة الیوم فلنسخّر-جمیعاً-ما بقی لنا من عمر وجهد وحكمة، فی سبیل هذا المبدا العظیم، ان نجتمع على التّقى وأن نكفّ عن نبش الماضی، وأن نحسن الظن بالناس، غائبهم وشاهدهم، كما هو حسن ظنّنا بالله، وأن نوكل أمر حسابهم إلى ربّهم فهو أعلم بسرائرهم وعلانیّتهم وما أخفت صدورهم وهو ألطف بخلقه، وأعذر لهم، من بعضهم لبعض، وإنه لیس شیء أجلب لرحمة الله وعفوه، من ان یرانا، متصافین، متآخین، متراحمین، ولعل الله سبحانه وتعالى ینفع الأمة بعلمائها، فلنترك ألقابنا، وانتساباتنا، إن كان ذلك عائقاً فی جمع شملنا، و فی تكافلنا ووحدتنا، ولیكن شعارنا الإسلام، ودستورنا القرآن، وأسوتنا نبیّنا صلى الله علیه وسلم، و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمین.

دمتم فی حفظ الله وعونه

مخاطبكم الساعی إلى إرضاء ربّه

هشام قریسة

جامعة الزیتونة بتونس

 

 

خط کا ترجمہ :

بسم الله الرحمن الرحیم

محترم شیخ آیت اللہ صافی ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ !

مجھے آپ کا قابل تعریف پیغام موصول ہوا ، جس میں آپ نے آسٹریا کی آئینی عدالت کے سربراہ جناب کرسٹوف گریبنواٹر (Christoph Grabenwarter) کی جانب سے عدالت کے اس غیر منصفانہ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی وجہ سے ان کے اس اقدام کو سراہا تھا کہ جس میں مسلمان خواتین کے حجاب پہننے کے حق سے انکار کیا گیا ہے ، اور آپ نے ان کے انصاف اور حق کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا شکریہ ادا کیا تھا ۔

میں بذات خود اس معاملے پر آپ کی توجہ  اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے مسائل پر آپ جناب کی توجہ کے لئے آپ کا شکرگزار ہوں   ۔ اور مجھے امید ہے خداوند آپ کے عمل و سعی کو صالحین کے عمل و سعی کے زمرے میں قبول فرمائے ، اور آپ کو خیر و عافیت عنایت فرمائے ، اور آپ  کی جسمانی صحت ، عقل کی فراوانی اور کمال حکمت عطا فرمائے ۔  کیونکہ ان پروآشوب حالات  اور ان تلاطم خیز موجوں کے درمیان خداوند متعال تک پہنچنے کی راہ میں امت مسلمہ کو سب سے بڑھ کر حکمت و بصیرت کی ضرورت ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ وحدت کلمہ ، تفرقہ بازی و  اوہام سے دوری ، سچی نیت  اور خیر و خوبی تک رسائی کے لئے سعی و کوشش کی بھی ضرورت ہے ، چونکہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ دنیا میں ہمارا سامان ، سرمایہ اور ہماری حالت کے لئے مفید ہے ، اور آخرت میں ہمارے لئے نجات کا راستہ ہے ۔

امت مسلمہ نے اپنی آرزوؤں کو اپنے علماء و دانشوروں سے منسلک کر رکھا ہے ، ایسے علماء و دانشور جو امت کو ان سے وابستہ توقعات اور امیدوں پر  پورا اتریں ،  جو ان کے درد کا مداوا کریں ، ان کے زخموں پر مرحم رکھیں ،  اچھے اور مفید کام انجام دینے کے لے لوگوں کی رہنمائی کریں ،  اور خدا کی مخلوق (چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم)کے بارے میں  نیک خیال رکھتے ہوئے انہیں متحد کریں ۔  کیونکہ لوگوں کے بارےمیں نیک خیالات سے بڑھ کر کوئی بھی چیز  شفت ، دوستی ، الفت اور محبت کو فروغ نہیں دیتی ۔نیز  امت مسلمہ کو خیانت ،بدگمانی  ،اور  ایک دوسرے پر گمراہی ، بدکاری اور منافقت کی تہمت لگانے سے بہت نقصان ہوا ہے ۔  

آج امت اسلامی کو انتشار ، ذلت و حقارت ،سستی ، کاہلی، ہمت و  ارادہ کے فقدان اور ذمہ داریوں سے فرار جیسی مشکلات کا سامنا ہے ، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے  ۔ پس ہم سب اپنی باقی زندگی ، کوشش اور دانشمندی کو اس اصل ، عظیم اور اہم راہ پر صرف کریں  ، جو یہ ہیں :

تقویٰ پر اکٹھا ہونا،ماضی کو کریدنے سے گریز کرنا،لوگوں کے بارے میں نیک خیالات (چاہے وہ موجود ہیں اور  چاہے وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں)، ان کا حساب و کتاب ان کے خدا پر چھوڑ دینا ، کیونکہ وہ ان کے مخفی و آشکار رازوں اور ان کے سینوں میں پوشیدہ  امور  کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے ، وہ اپنی مخلوق پر سب سے  زیادہ مہربان ہے ، اور وہ  ان کے عذر کو سب سے زیادہ قبول کرنے والا ہے۔  ایک دوسرے کے لئے ہماری محبت  و الفت اور بھائی چارے سے بڑھ کر کوئی بھی  چیز ہمارے لئے خدا کی رحمت و بخشش کا باعث نہیں بنتی ، اور امید ہے کہ کہ خداوند سبحان اس امت  کو اس کے علماء سے مستفید فرمائے ۔

پس ہمیں اپنے القاب، عناوین اور اپنی وابستگیوں کو ترک کرنا چاہئے؛ جو ہمارے ایک ساتھ ملحق ہونے ،تعاون اور  ہمارے اتحاد میں رکاوٹ ہیں ،  اور ہمارا واحد نعرہ اسلام، ہمارا واحد قانون قرآن ، اور ہمارا واحد نمونہ ہمارے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہونے چاہئیں ۔ و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمین ۔

ہمیشہ خدا کی پناہ میں رہیں اور اس کی مدد سے مستفید ہوں ۔

آپ کا مخلص، جو اپنے پروردگار کی رضا و خوشنودی کا طالب ہے ۔

ہشام قریسہ

الزیتونة یونیورسٹی ، تیونس

 

 

Sunday / 30 May / 2021