جمعه: 1403/02/7
Printer-friendly versionSend by email
عاشورا؛ تاریخ کا جاودانہ دن
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بارے میں مرجع عالیقدر آیت الله العظمی صافی کی سلسلہ وار تحریر

* کاش ! کل کا سورج طلوع نہ ہوتا

خدایا! اگر تاسوعا کے بعد وہ کل نہ  ہوتی اور قیامت کی صبح تک اس دن کی صبح نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟

خدایا! اگر وہ کل نہ ہوتی تو کیا ہوتا ، اور وہ خوفناک مظالم جن کی اس وقت تک تاریخ میں کوئی نظیر نہیں تھی اور اس کے بعد دوبارہ بھی نہیں ہوگی ، اور انسانیت کی تاریخ اس قدر سیاہ اور اتنی شرم و رسوائی سے بھری ہوئی نہ ہوتی ، اور کربلا میں تاریخ کے سب سے بڑے جرائم کے ارتکاب کے لئے جمع ہونے والے درندوں کو اس سب گستاخی اور نفس کی خباثت کے اظہار کا موقع نہ ملتا ۔

وہ بدترین ظالم اور مجرم تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیا ، یزید اور ابن زیاد کے سامنے  بیچ دیا  تھا ، جو کم ظرف ، ظلم کی تصویر ، بے عزت و شرف ، پست ، پلید ، تمام اخلاقی برائیوں کے مالک اور مظلومین کے دشمن تھے ۔

خدایا! اگر تاسوعا کا دن اپنے اختتام تک نہ پہنچتا تو شمر و سنان ، ابن سعد ، حرملہ اور تیرے اولیاء کا محاصرہ کرنے والے ظالم و جابر  اپنے تمام تر مظالم بنی نوع انسان کی سیاہ  کتاب میں درج نہیں  کروا سکتے تھے  کہ جنہوں نے  پوری تاریخ میں آ چکے اور آنے والے اربوں انسانوں کو ذلیل و رسوا اور شرمندہ کیا ۔

خدایا ! کیا ہو جاتا  اگر تیرا سورج اور چاند حرکت کرنا چھوڑ دیتا اور زمین گردش کرنا چھوڑ دیتی  تاکہ کل تاسوعا کے بعد تیرے سب سے عزیز اور بہترین عبد حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار تیرے دشمنوں کے ہاتھوں شہید نہ ہوتے  اور تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہل بیت پر وہ سب جانگداز مصائب نہ آتے ؟

لیکن خدایا ! تو خود اس کائنات کا مالک ہے اور تو نے دنیا کو امتحان اور آزمائش کا گھر  قرار دیا ہے اور فرمایا ہے :

«لیبلوكم ایّكم احسن عملاً» ، تیری قضا و قدر سے انسانوں کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے  تا کہ کمال انسانیت کے اعلیٰ مراتب اور درجات  پر فائز ہو کر «ان الله اشتری من المؤمنین انفسهم و اموالهم بان لهم الجنه» کے ذریعے تجھے سب سے بہترین خریدار کے طور پر پہچانیں اور خود تیرے حضور فروخت شدہ قرار دیں ۔ نیز  (خدا نے ) اسفل السافلین میں جگہ پانے والوں کی «اولئك كالانعام بل هم اضل» کے ذریعے ان کی خباثت کو بیان کیا ہے تا کہ انہیں پہچانا جا سکے ۔

* عاشورا ؛  حق و باطل کا معرکہ

شب عاشورہ کی طرح دونوں گروہوں کے سربراہان ، جن کے بارے میں ہم نے پڑھا اور پڑھیں گے کہ وہ تاریخ میں ہمیشہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ،  جو واقعۂ کربلا میں بھی ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں ، انہوں نے اس دنیا کے اختتام تک پوری دنیا کو حق و باطل کے دو محاذوں اور  ان کے موقف کو دیکھنے میں مصروف کر دیا ۔

حسین علیہ السلام، اہل بیت اطہار علیہم السلام اور آپ کے اصحاب کا مؤقف  الٰہی و رحمانی تھا ، اور وہ ظاہری طور پر محدود و معدود اور کم تھے لیکن باطنی طور پر  امت اور بے نظیر و بے بدیل شخصیات کی ایک دنیا تھے  ،  جنہوں نے راہ خدا میں عزت و کرامت ، انسانی شرف ، کلمۃ اللہ کی بلندی اور معالم دین کے احیاء کا ارادہ کیا ،اور کسی قسم کا دباؤ ، دھمکی ، ناگوار حالات ، نوجوانوں کی شہادت ، بچوں کی پیاس اور کائنات کی سب سے فاضل اور  سب سے باوقار بیبیوں کی اسیری سے بھی ان کے ارادے میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں پڑا ، اور آپ نے کوفہ کی سپاہ  کا نحس ، پلید ، غیر انسانی اور بے شرم چہرہ آشکار کر دیا ، جنہوں نے خدا سے جنگ کا اعلان کیا ، اور جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے فرزند سے جنگ کرنا چاہتی تھی  ، آپ  کے تمام ساتھیوں کو تشنہ لب تہہ تیغ کرنا چاہتی تھی اور  خدا کی بارگاہ میں سب سے محترم اور معزز خواتین کو اسیر بنانا چاہتی تھی ۔

ابن سعد و شمع ، سنان و خولی اور یزید و ابن زیاد کے گروہ کو انعامات اور عہدوں کا لالچ یا یزید و ابن زیاد کا خوف کربلا کھینچ لایا تھا ، لیکن حسین علیہ السلام کا  گروہ حزب خدا تھا جو اعلیٰ درجات کو درک کرنے کے شوق  سے اور دین کے ناموس ، حرم نبوت اور ولایت کے دفاع میں اس امتحان  و آزمائش کے میدان میں حاضر ہوئے تھے ۔

* سعادت منداور شقاوت مند

کربلا میں سنہ ۶۱ ہجری میں شب عاشورا کا منظر ایک عبرت انگیز اور سبق آموز منظر تھا ؛ جس میں امام حسین علیہ السلام کے مبارک چہروں سے سعادت ، عزت نفس اور بلند ہمت آشکار تھی اور بنی امیہ کے پیروکاروں کے پلید چہروں سے شقاوت ، ذلت اور پستی نمودار ہو رہی تھی ۔

امام حسین علیہ السلام کا لشکر اپنے رہبر و رہنما کی طرح خود کو سعید سمجھ رہا تھا اور اپنے اس اعلیٰ منصب پر افتخار کر رہا تھا  اور ان کے دل میں اپنے حسن عاقبت میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ نہیں تھا ،  ان کی نظر میں ان کے اور ان کی کامیابی کے درمیان اور لقاء اللہ تک پہنچنے تک کا فاصلہ صرف ان کے آقا و مولا کے ہم رکاب شہید ہونا تھا ، انہوں نے بڑے آرام اور اطمینان کے ساتھ پوری رات عبادت میں گزاری  ۔

یزید  ، ابن زیادہ اور عمر سعد کی فوج ظاہری طور پر خود کو کامیاب سمجھ رہی تھی ، لیکن وہ اپنے اس مقام کی وجہ سے خود کو سعادت مند نہیں سمجھ رہی تھی ، شمر اور اس کے ساتھ اس جیسے بدصورت کردار کے مالک افراد ؛ جو شاید اولیائے خدا  ، اولاد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، ایمان ، توحید اور کمال انسانیت کے مظاہر  کو قتل کرنے سے لذت محسوس کرتے تھے  اور جو اپنے اس عمل پر شرم محسوس نہیں کرتے ہیں ، ان کے علاوہ بقیہ تمام افراد اپنے ضمیر اور وجدان کے ساتھ جنگ و جدال  اورکشمکش میں مبتلا تھے ۔ بہرحال اگرچہ ہم بنی امیہ کی جانب سے حق کی غیر معمولی مخالفت اور خاندان رسالت علیہم السلام کے ساتھ ان کی بے انتہا دشمنی اور دین کے خلاف ان کی عداوت کا اندازہ نہیں لگا سکتے ، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کے باوجود ان اشقیاء میں کوئی ایسا نہیں تھا  جو قتل ہونے اور اپنی جان قربان کرنے کے لئے آیا ہو ،  سب لوگ صرف اس لئے آئے تھے کہ وہ واپس جا کر انعام لے سکیں ،  یا یہ کہ انہیں ابن زیاد کے غیظ و عضب کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ ان کے درمیان کچھ ایسے افراد بھی تھے جو حر کی طرح یہ پیشنگوئی نہیں کر رہے تھے کہ اس واقعہ کا انجام امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر ہو گا  ، اور کچھ دوسرے ایسے افراد بھی تھے جنہیں  ان حالات میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں  کی استقامت اور ثابت قدمی کا یقین نہیں تھا اور  وہ یہ سوچ رہے تھے کہ ان کے لئے تسلیم ہونے یا جنگ و شہادت کی پیش کش کارگر ثابت ہو گی ، کیونکہ ان حالات میں دنیا کے بڑے بڑے شجاع بھی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ، لہذا ان کا خیال تھا کہ امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھی بھی العیاذ باللہ اس ذلت کو قبول کر لیں گے ۔

المختصر یہ کہ چند گنے چنے افراد کے علاوہ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو معنویات کے لحاظ سے خود کو قانع کر سکے اور اس جنگ میں ہونے والے معنوی نقصان کا استقبال کر سکے  اور اس ہلاکت میں موت کو  اپنی حقیقی ہلاکت نہ سمجھے ۔ وہ امام علیہ السلام اور آپ  کے ساتھیوں کا مرتبہ نہیں پا سکتے تھے ؛ کیونکہ وہ باطل پر تھے اور وہ اپنے وجدان اور ضمیر میں فرزند پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف جنگ کا کوئی عذر پیش نہیں کر سکتے تھے ۔لیکن جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے خود بھی اپنے اصحاب کی توصیف بیان کی ہے ، اور انہوں نے بطور مکرر اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ امام علیہ السلام کی راہ میں شہادت کے علاوہ کسی چیز پر راضی نہیں ہیں ، وہ سب تیار تھے کہ اس جنگ میں اپنی جان کی قربانی پیش کریں اور شہادت کے درجہ پر فائز ہو سکیں ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ قرآن نے راہ خدا میں مجاہدین کے مرتبہ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہم رکاب ہو کر جہاد کرنے والوں کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : «قل هل تربصون بنا الا احدی الحسنین»  ۔ ان کا موقف تسلیم ، حق کو ترک کرنے ، امام کو ترک کرنے یا راہ خدا میں شہادت کے درمیان خلاصہ کیا گیا تھا اور عظیم ، با ایمان اور انسانی وقار کی حامل شخصیات نے شہادت کا راستہ اختیار کیا اور ایک لمحہ کے لئے بھی اس میں کوئی شک و تردید نہیں کی کہ وہ حق پر ہیں اور ان کی شہادت خدا کی راہ میں اور اس جنگ میں انہیں کوئی نقصان نہیں ہو گا ، اور یہ کہ خدا کی بارگاہ میں قتل ہونے کا انہیں کوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا ، وہ محکم ایمان رکھتے تھے  اور اس لحاظ سے ان میں سے کوئی ایک بھی عاشور کے دن میدان سے نہیں بھاگا ، حالانکہ ان کے دشمنوں کو جہاں کہیں بھی موت کا خطرہ دکھائی دیتا تھا وہ فوراً وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے تھے ۔

* آخری رات

شب عاشورا امام حسین علیہ السلام کے خیام طاہرہ اور آپ  کی لشکر گاہ معنویت ، پاکیزگی اور لقاء اللہ کے شوق سے بھرپور تھے ، اور ان سے مناجات کی دل نواز صدا بلند تھی ، تہجد اور ان کی عبادت انسانیت کی اقدار میں اضافہ کر رہی تھی : «لهم دویّ كدویّ النحل ما بین راكع وساجد وقائم وقاعد».

ان میں سے کسی کو بھی اس بات کا افسوس نہیں تھا کہ وہ کل رات زندہ نہیں ہو گا ۔ وہ غیرت مند اور بہادر صرف اس بات پر پریشان تھے کہ کل رات کائنات کی ان عظیم ترین ، اور سب سے زیادہ صاحب شرف و کرامت خواتین کو دشمن اسیر بنا لے گا اور کوئی ان کا حامی و ناصر نہیں ہو گا ۔

 شب عاشورا امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصھاب کا منظر کوفہ کی فوج کے لئے ایک اور اتمام حجت تھا تا کہ وہ یہ جان لیں کہ وہ کتنا بڑے جرم کے مرتکب ہونا چاہتے ہیں ، تا کہ وہ یہ سمجھ جائیں کہ وہ شب زندہ داروں ، قرآن کے قاریوں اور خدا کی بہترین مخلوق کے خلاف برسرپیکار ہیں ، اگرچہ امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے لئے آنے والے اکثر چہرے ان کے لئے ناآشنا نہیں تھے ۔

حبیب ابن مظاہر  اور مسلم بن عوسجہ جیسے حضرات ان شخصیات میں سے تھے کہ اسلام میں جن کا ماضی سپاہ کوفہ اور بالخصوص ان کے سربراہان پر پوشیدہ نہیں تھا اور وہ سب ان شخصیات کو زہد و پارسائی ، حافظ قرآن  اور عابد کے طور پر جانتے تھے ۔ ابو عمر نہشلی کی تہجد اور کثرت سے نماز ادا کرنے سے توصیف کی جاتی تھی  اور اسی طرح سوید بن عمرو شرافت اور کثرت نماز سے مشہور تھے ۔

امام حسین علیہ السلام کے غلام قارب ، قرآن کے قاری تھے ،  شؤذب روایت کی مجلس رکھتے تھے اور مشائخ حدیث میں سے تھے ، اسی طرح بریر بن خضیر قرآن کے قراء میں سے تھے ۔ قیس بن مسہر ، عمرو بن خالد ، ابو ثمامه ، سوید ، عبد الله بن عمیر اور سعید بن عبد الله... یہ سب ایسی شخصیات تھیں کہ جن کا امام حسین علیہ السلام کی ہم رکاب ہو کر جانثار کرنا ان کی اور ان کے گروہ  کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے ۔ ان کے علاوہ پیغمبر صلی الله علیه و آله و سلم کے کچھ اصحاب ، جیسے : انس بن حارث ، حبیب بن مظهر ، مسلم بن عوسجه ، ابو سلامه ، ہانی ، عبد الرحمن بن عبد رب انصاری اور عبد الله بن یقطر بھی امام حسین علیہ السلام پر جان قربان کرنے کے شرف افتخار سے مشرف ہوئے ۔ امام حسین علیہ ‌السلام کے اصحاب میں بزرگ شخصیات ، حاملان حدیث، عباد، زہاد، مشہور قراء اور تابناک ماضی اور سوابق کے حامل تھے ، ان میں سے کسی ایک کا قتل دوسرے فریق کی محکومیت اور باطل ہونے   کی واضح اور معتبر سند ہے ۔

* تاریخ میں جاودانہ سربلندی

وہ رات اور وہ دن وقت کے لحاظ سے بہت مختصر تھا ، جو بہت ہی تیزی سے گزر گیا ، لیکن اس رات کے ہر ایک سیکنڈ میں وہ صبر ، ثابت قدمی اور ارادے میں استقامت صرف ان لوگوں کی طرف سے ظاہر ہوئی جو نیک کردار ، صاحب فضیلت اور شخصیت تھے ۔

انہیں خدا کی رضا ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رضا ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی رضا ، حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کی رضا ، امام حسن مجتبی علیہ السلام کی رضا اور ان کے آقا و مولا امام حسین علیہ السلام کی رضا مبارک ہوا ۔

اس معرکہ میں ان کے تمام مادی پہلو ختم ہو گئے لیکن ان کی فضیلت ، معنویت   اور نام جاوداں ہو گیا  ، اگرچہ دشمن ان کے ابدان پر تو غالب آ گیا لیکن ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ان کے مکارم اخلاق ، حریّت ، ایمان ، اصطبار  اور  ظلم و بربریت کے خلاف ان کے موقف پر مسلّط نہیں ہو سکا

Saturday / 18 September / 2021