امام رضا علیه السلام نے فرمایا : «جس میں ورع اور پرہیزگارى نہ ہو ، اس میں دین نہیں ہے ، اور جو تقیہ نہ کرے ، اس میں ایمان نہیں ہے ، اور خدا کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ دار ہو ؛ یعنی جو تقیہ پر زیادہ عمل کرے » ۔ عرض کیا گیا : «یابن رسول اللہ ! ہم کب تک یہ عمل انجام دیں ؟» آپ نے فرمایا: « ظہور کے دن اور قائم علیہ السلام کی آمد تک ، اور اگر کوئی قائم علیہ السلام کے ظہور سے پہلے تقیہ کو ترک کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے » ۔ حضرت سے دوبارہ سوال پوچھا گیا : «آپ اہل بیت (علیہم السلام) کا قائم (علیہ السلام) کون ہے ؟»
فرمایا: «میری آل میں سے میرا چوتھا فرزند ، اور وہ سیدۃ النساء کے فرزند ہیں ، خدا ان کے ذریعہ زمین کو ہر ظلم و ستم سے پاک کر دے گا ، ان کی ولایت کے بارے میں لوگوں کو شک ہو گا ، ظہور سے پہلے ان کی ایسی غیبت ہو گی ، جب وہ ظہور کریں گے تو زمین ان کے نور سے منور ہو جائے گی ، اور وہ لوگوں کے درمیان عدالت پر عمل پیرا ہوں گے ، اس طرح سے کہ کوئی کسی دوسرے پر ظلم نہیں کرے گا ، ان کے قدموں تلے زمین نورانی دکھائی دے گی اور ان کا سایہ نہیں ہو گا ، منادی آسمان سے ندا دے گا [ تمام اہل زمین اس کی آواز سنیں گے اوروہ لوگوں کو ان کی طرف دعوت دے گا ] اور کہے گا : امام زمانہ کا خانۂ خدا (خانۂ کعبہ) کے ساتھ ظہور ہوا ہے ، پس ان کی پیروی کرو ، (کیونکہ) حق ان کے ساتھ ہے ، اور (حق) ان میں ہے ، خداوند کریم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
إِنْ نَشَأْ نُنَزّلْ عَلَیْهِمْ مِنَ السَّمآءِ آیَةً فَظَلَّتْ أَعْناقُهُمْ لَها خاضِعِینَ؛ «اور اگر ہم چاہتے تو آسمان سے ایسی آیت نازل کر دیتے کہ ان کی گردنیں خضوع کے ساتھ جھک جاتیں » ۔
دعبل خزائى نے کہا : میں نے اپنے آقا و مولا علی بن موسی الرضا علیه السلام کی خدمت میں اپنا قصیدہ پڑھا اور ان سے عرض کیا : «میرا یہ قصیدہ کیسا تھا؟» امام رضا علیه السلام نے مجھ سے فرمایا :
«کیا تم اس میں دو بیت (اشعار) کا مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتے ؟» میں نے عرض كیا : «جی ہاں ! (کیوں نہیں) ، یابن رسول اللہ !» فرمایا : « اور طوس میں ایک قبر ، اور اس صاحب قبر پر وارد ہونے والی مصیبت پر افسوس ہے ، یہ مصیبت ان پر بہت زیادہ دباؤ اور مشقت ڈالے گی ، یہاں تک کہ خدا قائم علیہ السلام کو مبعوث کر دے ، اور وہ ہمارے غم اور پریشان کو دور کر دے» ۔
دعبل کہتے ہیں : پھر میں نے امام رضا علیه السلام کے سامنے اپنا باقی قصیدہ پڑھا ، اور جب میں نے یہ اشعار پڑھے تو امام علیہ السلام نے شدت سے گریہ کیا:
ظهور امامى كه حتماً اتفاق خواهد افتاد*** و با نام خدا، قیام مىكند و داراى بركات است
حق و باطل را در میان ما جدا خواهد كرد*** و بر حق، نعمت و بر باطل، لعنت جارى مىشود.
اور پھر فرمایا : «اے دعبل! روح القدس نے اشعار تمہاری زبان پر جاری کئے ہیں ۔ کیا تم اس امام کو جانتے ہو؟»
میں نے عرض كیا: « نہیں ! لیکن میں نے صرف یہ سنا ہے کہ آپ اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک امام ظہور کرے گا ، جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا » ۔
امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام نے فرمایا : « میرے بعد میرا بیٹا محمد امام ہے ، ان کے بعد ان کے فرزند علی امام ہیں ، ان کے بعد ان کے فرزند حسن امام ہیں ، اور حسن کے بعد ان کے فرزند حجت قائم علیه السلام ہیں .
لوگ ان کی غیبت کے زمانے میں ان کے منتظر ہوں گے اور ان کےظہور کے زمانے میں ان کے پیروکار ہوں گے ، وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دیں گے ، جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی ۔ اور یہ کہ وہ کب آئیں گے ؟ یہ ظہور کے وقت کے بارے میں خبر دینا ہے [ اسے (یعنی ظہور کو) معین کرنے والا جھوٹا ہے ] بیشک میرے والد گرامی نے اپنے آباءو اجداد سے میرے لئےنقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
« قائم علیه السلام کی مثال اس وقت اور زمان کی طرح ہے جو ناگہانی طور پر تمہاری تلاش میں آتا ہے» ۔
منبع: سلسله مباحث امامت و مهدویت : ج4 ، ص234