جمعه: 1403/02/7
Printer-friendly versionSend by email
امام حسين عليہ السلام كے غم سياہ لباس پہننے كا استحباب

محضر مبارك حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی دامت بركاتہ
سوال : حضرت عالی كی نظر میں امام حسین علیہ السلام اور دیگر ائمہ كے غم سیاہ لباس پہننا شرعی رجحان ركھتا ہے یا نہیں ؟

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام اللہ و سلام انبیائہ وملائكتہ علی سیدنا ومولانا ابی عبداللہ الحسین المظلوم سید الشہداء وابی الاحرار وعلیٰ اہل بیتہ واولادہ واصحابہ ۔

جواب : چونكہ كالے لباس اہل مصیبت كا شعار اور غم زدہ افراد كی نشانی ہیں لہذا حضرت سید الشہدا(ع) اور دیگر ائمہ علیہم السلام كے غم میں ان كا پہننا بے شك رجحان ركھتا ہے اور شعایر الٰہی كی تعظیم ،اہل بیت علیہم السلام سے محبت اور ان كے دشمنوں سے نفرت، ان كے ایثار و فداكاریوں اور راہ حق میں شہادت كی قدردانی اور دین اسلام كی حفاظت اور بہت سے عناوین كا مصداق ہونے كی وجہ سے رجحان ركھتا ہے ۔
عراق كے شیعوں میں رائج ہے كہ وہ دس دن محرم میں اپنے گھر كے اوپر سیاہ پرچم لہراتے ہیں ،یہاں تك كہ اگر كوئی سنسان جنگل میں كسی چھوپڑی میں بھی رہتا ہے تو وہ بھی اپنے گھر پر سیاہ پرچم ضرور لگاتا تھا ۔

یقینا یہ طریقہ ،سیاہ لباس پہننا ،گھر اور امامبارگاہوں كے در و دیوار كو سیاہ پوش كرنا اور مجالس برپا كرنا ایك عظیم اور عبرت آمیز درس ہے جس كے ذریعہ سے ہماری فكروں میں بلندی پیدا ہوتی ہے اور مذہبی اور انسانی شعور بیدار ہوتا ہے ،نیز اس كے ذریعہ سے مذہب زندہ ہوتا ہے اور ہمارے اور اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام كے رابطے مستحكم ہوتے ہیں، ان اعمال كے ذریعہ ہم اہل بیت علیہم السلام سے كئے ہوئے پیمان كی تجدید كركے ظلم و جور كی مخالفت كا اعلان كرتے ہیں ۔
اور جن لوگوں نے اجماع یا بعض روایات كی بنیاد پر سیاہ لباس پہننے كو مكروہ قرار دیا ہے وہ حكم چند جہت سے قابل اشكال ہے :
اول : اصل كراہت كا یہ حكم قابل اشكال ہے چونكہ اس پر سب سے بڑی دلیل اجماع ہےاور كسی حكم پر اجماع منعقد ہوناامكان سے باہر ہے اور بالفرض ممكن ہو بھی تب بھی چونكہ احتمال ہے كہ اجماع كرنے والوں نے اس خبر كی بنیاد پر حكم دیا ہو جو ضعیف ہے لہذا یہ اجماع معتبر نہیں ہوگا۔
اسی طرح سے ان كا ان اخبار پر قاعدہ تسامح در ادلہ سنن كے تحت عمل كرنا كراہت كو ثابت نہیں كر سكتا ہے ۔
ایك دوسرا اشكال یہ بھی ہے كہ ایك موضوع كے حكم كا دوسرے ایسے موضوع كے لئے ثابت كرنا جس  میں كوئی خصوصیت بھی پائی جاتی ہو ،قیاس ہے اور جائز نہیں ہے
لہذا قاعدہ تسامح در ادلہ سنن كو مكروہات میں جاری نہیں كیا جا سكتا ہے، خاص كر ایسی صورت میں جب كہ یہ قاعدہ اپنی جگہ پر خود مورد اشكال ہے۔
انہ یستفاد من ھٰذہ الاخبار انّ من بلغہ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثواباً علی امرٍ ثبت رجحانہ بالشرع سواء كان مستحباً او واجباً،او لم یثبت رجحانہ ،اِن اتیٰ بہ التماساً لھذا الثواب یعطیٰ بہ ذلك الثواب ویوجر بہ واین ھٰذا من الحكم بالاستحباب حتیٰ یقال بہ فی غیرہ
چونكہ اس قاعدہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے كہ جن چیزوں كے بارے میں پیغمبراكرم(ص) سے ثواب نقل كیا گیا ہے وہ رجحان ركھتے ہوں چاہے واجب كی صورت میں ہوں یا مستحب كی صورت میں،یا رجحان نہ ركھتے ہوں ،اگر كوئی ان اعمال كو ثواب كی امید سے انجام دے تو اس كو اس كام كا اجر ملے گا ۔ اس قاعدہ سے ایسے امر كا استحباب سمجھ میں نہیں آتا ہے ۔
بہر حال جو دلیلیں كراہت پر دلالت كرتی ہیں وہ سند كے اعتبار سے ضعیف ہیں ،اور اصحاب كا عمل سند حدیث كے ضعف كو اس صورت میں جبران كر سكتا ہے جبكہ وہ خود اس روایت سے استناد كرتے ہوں لیكن اگر ان كا استناد بھی قاعدہ تسامح كی بنیاد پر ہوتو یہ عمل سند كے ضعف كو جبران نہیں كر سكتا ہے ۔
خاص كر ایسی صورت میں جبكہ كراہت كا حكم ،حكم اولی كے عنوان سے نہیں تھا بلكہ اس وجہ سے تھا كہ بنی عباس سیاہ لباس پہن كر اپنے كو عزادار ظاہر كرتے تھے اور لوگوں كو فریب دیتے تھے تو اس لباس كو منع كیا گیا تاكہ اس كےذریعہ یہ شائع نہ ہو كہ بنی عباس كی تعداد زیادہ ہے ۔اور اس صورت میں سیاہ پہننا خود كو ظالمین سے مشابہ كرنے كے مترادف تھا اس لئے ممنوع قرار دیا گیا ۔لہذا یہ حكم اس علت مذكورہ كے دائر مدار ہوگا اور جب علت ختم ہو جائے تو حكم بھی ختم ہو جائے گا ۔
لہذا جب بنی عباس ہی ختم ہو گئے تو اس حكم كے بقاء كی كوئی علت باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔
دوم : اگر كراہت ثابت بھی ہو اور اس كی دلیل اجماع ہو تو ائمہ كے غم میں سیاہ لباس پہننا چونكہ ائمہ علیہم السلام كے زمانے میں رائج تھا اس لئے اس مورد كا اجماع میں داخل ہونا یقینی نہیں ہے بلكہ قدر متیقن یہ ہے كہ جہاں عزا اور غم كا عنوان نہ ہو وہاں یہ حكم ثابت ہے ۔
اس تفصیل كے بعد جس روایت كو صاحب حدائق نے علامہ مجلسی(رہ) كی جلاء العیون سے نقل كیا ہے وہ خود اپنے حصر كے لحاظ سے اس بات پر دلالت كرتی ہے كہ عزاداری كا مورد اس اطلاق سے باہر ہے اور اگر یہ روایت نہ بھی دلالت كرتی ہو تو دیگر روایات سے اس اطلاق كو مقید كیا جا سكتا ہے ۔صاحب حدائق نے اس روایت سے شاید اس وجہ سے استناد نہیں كیا چونكہ علامہ مجلسی(رہ) نے اس حدیث كی سند كو ذكر نہیں كیا ہے اورانھوں نے وقت كی تنگی یا كتاب كی فراہمی نہ ہونے كی بنیاد پر دوسری جگہوں پر مراجعہ نہیں فرمایا ۔
اصل حدیث اس طرح سے ہے :
مشہور محدث خالد برقی طبقہ ہفتم سے كتاب محاسن ص/۴۲۰ حدیث نمبر۱۹۵ میں اپنے والد محمد بن خالد ،وہ حسن بن ظریف بن ناصح (جن كا تعلق رواۃ كے چھٹے طبقہ سے ہے)سے ،وہ اپنے والد ظریف بن ناصح (جن كا تعلق رواۃ كے پانچویں طبقہ سے ہے)سے اور انھوں نے حسین بن زید (ظاہراً ان سے مراد حسین بن زید بن علی بن الحسین علیہم السلام ہیں جن كا لقب ذی الدمعہ ہے اور ان كا تعلق پانچویں طبقہ سے ہے )وہ اپنے چچا عمر بن علی بن الحسین علیہ السلام سے روایت كرتے ہیں جس كی سند اور حدیث اس طرح سے ہے :
"عنہ عن الحسن بن ظریف بن ناصح عن ابیہ عن الحسین بن زید عن عمر بن علی بن الحسین علیہ السلام قال:
لما قتل الحسین بن علی علیہما السلام لبسن نساء بن ہاشم السواد والمسوح وكن لا تشتكین من حر ولا برد ،وكان علی بن الحسین علیہما السلام یعمل لھن الطعام للماتم (۱)
اس حدیث كو مشہور شخصیات اور اہل بیت كی نظر میں ثقہ راویوں نے نقل كیاہے اور اس سے چند مطالب پر استدلال كیا ہے از جملہ :
۱۔ غم اور ماتم میں سیاہ لباس پہننا شروع سے رائج تھا ،لہذا خاندان اہل بیت علیہم السلام كی عورتوں نے حضرت سید الشہداء علیہ السلام كے غم میں سیاہ لباس پہنا،اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے كہ یہ سنت بہت پہلے سے رائج تھی حتی پیغمبر اكرم (ص) كے زمانے اور اس سے پہلے بھی تھی كہ سیاہ لباس پہننا غم اور مصیبت كی علامت تھا۔
لہذا كراہت كے سلسلے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ غم و مصیبت ائمہ علیہم السلام كے موارد كو شامل نہیں ہونگی ۔چونكہ یہ مورد اس عام سے خارج ہے اور ایك خصوصیت كا حامل ہے ۔
۲۔امام علیہ السلام كی تشویق اور ترغیب بھی اس عمل كے راجح ہونے پر دلیل ہے اور اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے كہ اس عمل كو جاری ركھنا اس نہضت كی بقاء اور یاد آوری كے لئے ضروری ہے اور سید الشہداء علیہ السلام كے موقف كی تعظیم ہے لہذا راجح اور مستحب ہے ۔
یہ كہنا صحیح نہیں ہے كہ یہ روایت عورتوں كے بارے میں ہے ،ان كے لئے سیاہ لباس پہننا رجحان ركھتا ہے لیكن مردوں كے لئے رجحان نہیں ركھتا ۔ چونكہ اس رجحان كی دلیل یہ ہے كہ امام (ع) اس عمل كو اس لئے راجح قرار دیا ہے كہ اس سے حزن و غم كا اظہار ہوتا ہے چاہے مرد پہنے یا عورت لہذا یہ بھی اسی طرح ہے جس طرح كہا جاتا ہے"رجل شك بین الثلاث والاربع" كہ یہاں پر رجل سے مراد صرف مرد نہیں بلكہ عورت بھی شامل ہے اور دونوں اس حكم میں مساوی اور برابر ہیں ۔
یہ حدیث امیرالمومنین علی علیہ السلام كے اس كلام كی مانند ہے"الخضاب زینۃ ونحن قوم فی مصیبۃٍ" (خضاب كرنا زینت ہے اور ہم مصیبت زدہ لوگ ہیں )یعنی ہم لوگ خضاب نہیں كرتے چونكہ زینت كرنا غمزدہ لوگوں كے لئے مناسب نہیں ہے چاہے یہ زینت خضاب كی صورت میں ہو یا غیر خضاب ہو،اس سے یہ سمجھ میں آتاہے كہ سیاہ لباس كے ذریعہ غم كا اظہار امام علیہ السلام كی رضا كا موجب ہے چاہے یہ اظہار مردوں كی جانب سے ہو یا عورتوں كی طرف سے ،خود یہ عمل دونوں صنفوں سے مطلوب ہے ۔
بلكہ ہم یہ كہہ سكتے ہیں كہ اس حدیث كا یہ بھی مفہوم ہے كہ : ہر اس طریقہ سے عزاداری اور سوگ منانا جو جائز ہو مطلوب اور راجح عمل ہے چاہے سیاہ لباس پہننے سے ہو یا گریہ و زاری كے ذریعے ،مرثیہ خوانی اور ماتم سے ہو یا ننگے پاؤں چلنے سے یا كسی دوسرے وسیلے سے ،ان میں سے ہر ایك صحیح اور مطلوب ہے اور خداوند متعال كے نزدیك اس كا اجر و ثواب ہے ۔
جعلنا اللہ من القائمین بھا وحشرنا فی زمرتھم بحق محمد وآلہ الطاھرین صلوات اللہ علیھم اجمعین

(۱)اس حدیث كو علامہ مجلسی (رہ) نے بحار الانوار جلد۷۹ ص/۸۴ باب التعزیہ والماتم حدیث نمبر ۲۴ میں محاسن برقی سے نقل كیا ہے ۔

Thursday / 15 January / 2015