جمعه: 1403/02/7
Printer-friendly versionSend by email
نور سرمد

نور سرمد (امام حسین علیه السلام کی ولادت کی مناسب سے)

 

سلام ہو حسین علیه السلام پر:
السلام علیك یا اباعبدالله و علی ارواح التی حلّت بفنائك اشهد انك بذلت مهجتك فی الله حتی استنقذت عباده من الجهالة و حیرة الضلالة و احییت نظام الدین صلوات الله علیك و علی اهل بیتك و اصحابك و رحمة الله و بركاته؛
اے اباعبدالله آپ پر سلام ہو،اور آپ پر قربان و فنا ہونے والی ارواح پر سلام ہو،میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک آپ نے راہ خدا میں اپنا خون پیش کیا اور آپ یہ چاہتے تھے کہ خدا کے بندے جہالت اور گمراہی و ضلالت میں سرگرادنی سے نجات پائیں اور آپ نے نظام دین کو زندگی بخشی ۔آپ پر اور آپ کی اہلبیت پر اور آپ کے اصحاب پر خدا کا درود،رحمت اور برکات ہوں۔(با عاشورائیان، اثر معظم له، ص۷۶)

 

نور سرمد (آیت اللہ العظمی کے کلام کا ترجمہ)
روان عالم امكان ہے حسین
کائنات علم  و عرفان ہے حسین
جمال   الله  و اسم الله اعظم
ظهور اسم «الرّحمان» ہے حسین
ابراهیم ، موسی و مسیحا ہیں
مگرصاحب احسان ہے حسین
زہرا و علی کے نور عین ہیں
ختم الرسل کی جان ہیں حسین
ابوالاحرار اور سرور شهیداں
ولیّ اعظم یزدان ہیں حسین

تیری قدرت کے بحربیکراں سے
گوهر درخشاں ہیں حسین
به مُلك عشق و تجرید و توكّل
ولیّ مطلق و سلطان  ہیں حسین
خدا را فیض اكمل نور سرمد
دلیل و حجّت و برهان ہیں حسین

 

امام حسین علیه السلام کی محبت واجب
امام حسین علیه السّلام‎ سے محبت و مودت اور دوستی کے واجب ہونے کے سلسلہ میں بے شمار روایات ہیں۔ایک روایت میں پیغمبر اكرم صلّی الله علیه و آله نے فرمایا: مَنْ اَحَبَّنی فَلْیُحَبَّ هذَیْنِ؛ جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ ان دونوں(یعنی حسنین علیھماالسلام)سے محبت کرے ۔  (پرتوی از عظمت امام حسین علیه السلام، ص۴۷)

 

راہ حسین علیه السلام
ہم امام حسین علیه‌السلام کی راہ کوصراط مستقیم اور نجات و کامیابی کی راہ سمجھتے ہیں.(با عاشورائیان، ص۴۷)
شیعوں اور امام حسین علیه‌السلام کے محبین کو ہمیشہ اس راہ حسینی کواحیاکرنا چاہئے اور اپنے لئے نمونہ قرار دینا چاہئے.(با عاشورائیان،ص۴۸)
حسین علیه‌السلام کی راہ قرآن،احكام پر عمل اوراسلام پرافتخار کرنے کی راہ ہے۔امام حسین علیہ السلام کی راہ توحید اور خدا پر ایمان ہے۔اس لحاظ سے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں کوئی فرق نہیں ہے؛یہ كفر و بت پرستی یا آتش پرستی ،شرك یزدان اور فرعون و نمرود و جمشید کے استکبار پر افتخار نہیں ہے.(با عاشورائیان، ص۵۲)

 

امام حسین علیه‌السلام کی بقاء کا راز
اگر ہم امام حسین علیه‌السلام کو بزرگوں اور باعظمت شخصیات پر مقدم سمجھتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم ہرعظیم انسان کو مقدم سمجھتے ہیں بلكه ہم اس  عظیم شخص کو مقدّم سمجھتے ہیں کہ جس کی عظمت کے سامنے ہر عظمت چھوٹی نظر آئے اور ہم اس شخص کو برتر سمجھتے ہیں جو ہر شخصیت سے بالاتر ہو اور اس شخص کو مقدم جانتے ہیں جو تاریخ کے سب لوگوں پرفوقیت رکھتا ہو۔اور یہ تقدیم کوئی تازہ یا بدیعی عمل نہیں ہے کیونکہ تاریخ کے اہم افراد نے اپنی زندگی بزرگواری کے حصول میں صرف کی ہے ۔ امام حسین علیه‌السلام نے بھی اعلیٰ مقصد کے لئے اپنی جان فدا کر دی  اور ایسی شخصیت ہرکسی سے بلندتر و برتر ہے.( آئنه جمال ، ص۱۱)

 

امام حسین علیه‌السلام کی اخلاقی سیرت
امام حسین ‏علیه‌السلام‏ سماجی آداب اور دور یا نزدیک سے حسن معاشرت کے لحاظ سے بلند پایہ و بے نظیر ہیں۔آنحضرت عفو و درگذر سے سرشار تھے۔ حضرت زین‌العابدین اپنے والد گرامی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:«اگر کوئی شخص میرے ایک کان (آپ نے اپنے دائیں کان کی طرف اشارہ فرمایا)میں مجھے گالی دے اور میرے دوسرے کان میں عذر پیش کرے تو میں اس کا عذر قبول کروں گا۔

 امیرالمؤمنین ‏علیه‌السلام‏ نے میرے جد پیغمبر صلی الله علیه و آله سے میرے لئے نقل فرمایا:
لایَرِدُ الْحَوْضَ مَنْ لَمْ یَقْبَلِ الْعُذْرَ مِنْ مُحِقٍّ اَوْ مُبْطلٍ؛ جو شخص عذر کو قبول نہ کرے وہ حوض (كوثر) پر وارد نہیں ہو گا چاہے عذر پیش کرنے والا حق کہے یا باطل۔

امام حسین ‏علیه‌السلام‏ اپنے بیٹوں،خواتین، رشتہ داروں  اور اپنی اہلبیت سے نہایت ادب، محبت، رحمت، مهربانی اور انس و مودت سے پیش آتے تھے. (آینه جمال، ص۲۷)
آپ کے غلاموں میں سے ایک غلام آنحضرت کے دست مبارک پر پانی ڈال رہا تھا ،اس کے ہاتھ سے پانی کا برتن طشت میں گر گیااور طشت کا پانی آپ کے چہرۂ مبارک پر گرا. غلام نے عرض كیا: اے میرے آقا ! وَالْكاظِمینَ الْغَیْظَ ، آنحضرت نے فرمایا: اپنے غصہ کو پی لیا ہے. غلام نے عرض کیا: وَالْعافینَ عَنِ النّاسِ، حضرت نے فرمایا: تم سے عفو و درگذر کیا. عرض كیا: وَ اللهُ یُحِبِّ الْمحْسِنینَ، فرمایا: اِذْهَبْ فَاَنْتَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللهِ الْكَریم؛جاؤ تمہیں خدا کی راہ میں آزاد کیا.(پرتوی از عظمت امام حسین علیه السلام، ص۲۱۱)

 

امام حسین علیه السلام کی دعا
امام حسین علیه السلام نے شب عاشورا اپنے باوفا اصحاب و انصار کے مجمع میں خطبہ دیا اور خطبہ کے آغاز میں یوں فرمایا:
اثْنی عَلَی اللهِ اَحْسَنَ الثَناءِ، وَ اَحْمَدُهُ عَلَی السَرّاءِ، وَ الضَرّاءِ. اَللّهُمَّ اِنِّی اَحْمَدُكَ عَلَی اَنْ اَكرَمْتَنا بِالْنُبُوَّةِ؛ وَ عَلَّمْتَنَا الْقُرآنَ، وَفَقَّهْتَنا فِی الدّینِ، وَجَعَلْتَ لَنا اَسْماعاً، وَأبْصاراً، وَ اَفْئِدَةً فَاجْعَلْنا مِنَ الشّاكِرینَ؛
میں خدا کی احسن طریقہ سے مدح و ثنا کرتا ہوں اور خوشی و غم میں اس کی حمد کرتا ہوں۔خدایا!میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تونے مجھے نبوت سے نوازا،   اور مجھے قرآن کی تعلیم دی، اور فقہ دین عطا کی ،اور ہمیں  آنکھوں ،کانوں اور دل سے نوازا،پس ہمیں شکرکرنے والوں میں سے قرار دے۔ (گفتمان عاشورایی، ص۳۱)

 
قمر بنی‌هاشم (حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام کی ولادت کی مناسب سے )

 

زیارت حضرت ابوالفضل العباس
السَّلاَمُ عَلَیْكَ یَا أَبَا الْفَضْلِ الْعَبَّاسَ ابْنَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ السَّلاَمُ عَلَیْكَ یَا ابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّین‏
اےابو الفضل العباس بن امیر المؤمنین آپ پر سلام ہو،اے سید الوصیین کے فرزند آپ پر سلام ہو۔

السَّلاَمُ عَلَیْكَ یَا ابْنَ أَوَّلِ الْقَوْمِ إِسْلاَماً وَ أَقْدَمِهِمْ إِیمَاناً وَ أَقْوَمِهِمْ بِدِینِ اللَّهِ وَ أَحْوَطِهِمْ عَلَى الْإِسْلاَم‏
آپ پر سلام ہو اے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے اور ایمان کے لحاظ سے سب پر مقدم اور دین خدا میں سب سے زیادہ پائیدار اور اسلام کی حفاظت میں سب سے زیادہ مراقب کے فرزند۔

أَشْهَدُ لَقَدْ نَصَحْتَ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِأَخِیكَ فَنِعْمَ الْأَخُ الْمُوَاسِی فَلَعَنَ اللَّهُ أُمَّةً قَتَلَتْك‏
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا و رسول اور اپنے بھائی کے خیرخواہ تھے اور اب بہترین بھائی تھے کہ آپ نے امام حسین علیہ السلام سے مساوات و مواسات نبھائی۔

وَ لَعَنَ اللَّهُ أُمَّةً ظَلَمَتْكَ وَ لَعَنَ اللَّهُ أُمَّةً اسْتَحَلَّتْ مِنْكَ الْمَحَارِمَ وَ انْتَهَكَتْ حُرْمَةَ الْإِسْلاَم‏
خدا کی لعنت ہو اس امت پر کہ جس نے آپ پر ظلم کیا اور آپ کی ہتک حرمت کی اور جس نے آپ کا خون بہانا اور اسلام کی حرمت کو پامال کرنا جائز سمجھا۔

فَنِعْمَ الصَّابِرُ الْمُجَاهِدُ الْمُحَامِی النَّاصِرُ وَ الْأَخُ الدَّافِعُ عَنْ أَخِیه‏
پس آپ (اپنے بھائی حسین «ع» سے وفا  کی راہ میں ) صابر و مجاہد اور حمایت کرنے والے ناصر و مددگار ہیں کہ جنہوں نے اپنے بھائی کا مکمل دفاع کیا۔

 

حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام کا مقام و منزلت
حضرت امام سجاد علیه السّلام نے فرمایا: خدا میرے چچا عباس پر رحمت فرمائے کہ جنہوں نے اپنے بھائی پر قربانی دی اور اپنی جان ان پر قربان کر دی یہاں تک کہ ان کی نصرت میں ان کے کے دونوں بازو قلم ہو گئے اور خدائے متعال نے ان کے دونوں بازؤں کے بدلے دو پر عنائت فرمائے کہ جن کے ذریعہ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں اور جناب عبّاس علیه السّلام کا خدا کے نزدیک ایسا مقام ہے کہ جس کی وجہ سے روز قیامت تمام شہداء غبطہ کریں گے اور سب شہداء ان کے مقام کی آرزو کریں گے۔ (امالى شیخ صدوق، مجلس۷۰)

 

حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام کی بصیرت
امام صادق علیه السلام نے حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام کی شان میں فرمایا:
كان عمّنا العباس نافذ البصیرة؛  ہمارے چچا عباس صاحب نافذ البصیرہ (تیز بین اور عمیق  و دقیق دیکھنے والے) تھے.

(تنقیح المقال، ج ۲، ص ۷۰)
ایک دن حضرت علی علیه السلام اپنے فرزند حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام کو ان کے بچپن کے عالم میں فرمایا: کہو: ایک. حضرت عباس علیه السلام نے کہا: ایک ، حضرت علی علیه السلام نے فرمایا کہو:دو، تو حضرت عباس علیه السلام نے جواب میں کہا: استحیى ان اقول باللسان الذى قلت واحدا، اقول اثنان؛ جس زبان سے میں نے ایک کہا ہے (اور خدا کی توحید کااقرار کیا ہے) مجھے شرم آتی ہے کہ اسی زبان سے میں کہوں: دو (اور خدا کی یکتائی سے خارج ہو جاؤں) حضرت علی علیه السلام نے حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام کی دونوں آنکھوں کا بوسہ لیا.(مستدرك الوسائل : ج ۲، ص ۶۳۵، العباس، عبدالرزاق مقرم ، ص ۹۲)

 

امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے کلام میں
امام زمانہ عجل اللّه تعالی فرجه الشریف اپنے خوبصورت کلام کے ضمن میں اپنے چچا حضرت عباس علیه السّلام کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

سلام ہو ابوالفضل پر ، عباس بن امیرالمؤ منین ، اپنے بھائی کے عظیم ہمدرد کہ جنہوں نے ان پر اپنی جان قربان کر دی اور جنہوں نے اپنے گزرے ہوئے کل سے آئندہ کے لئے استفادہ کیا،جو اپنے بھائی کے جانثار و محافظ تھے اور ان تک پانی پہنچانے کے کوشش میں ان کے دونوں بازو قلم ہو گئے۔خداوند ان کے قاتلوں پرلعنت كرے. (المزار، محمد بن مشهدى ، چھٹی صدی کے بزرگوں میں سے)

 

سید العابدین (حضرت زین العابدین علیه السلام کی ولادت کی مناسبت سے)

 

صلوات ‏خاصه
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ سَیِّدِ الْعَابِدِینَ‏ الَّذِی اسْتَخْلَصْتَهُ لِنَفْسِكَ وَ جَعَلْتَ مِنْهُ أَئِمَّةَ الْهُدَی الَّذِینَ یَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ یَعْدِلُونَ‏ اخْتَرْتَهُ لِنَفْسِكَ وَ طَهَّرْتَهُ مِنَ الرِّجْسِ وَ اصْطَفَیْتَهُ وَ جَعَلْتَهُ هَادِیاً مَهْدِیّاً اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَیْهِ أَفْضَلَ مَا صَلَّیْتَ عَلَی أَحَدٍ مِنْ ذُرِّیَّةِ أَنْبِیَائِكَ‏ حَتَّی یَبْلُغَ بِهِ مَا تَقَرُّ بِهِ عَیْنُهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَةِ إِنَّكَ عَزِیزٌ حَكِیم؛‏

پروردگارا!عبادت گذاروں کے سردار حضرت علی بن الحسین پر درود بھیج کہ جنہیں تونے اپنے لئے خالص کیا اور ان کی نسل پاک سے ائمۂ ہدیٰ قرار دیئے  کہ جو بندوں کی حق کی طرف ہدایت کرتے ہیں  اور ان کی طرف رجوع کرتے ہیں،اور انہیں اپنے لئے اختیار فرمایا اور انہیں پلیدی وناپاکی سے پاک و مطہر کیا  اور انہیں منتخب کیا اور انہیں ہادی و مہدی قرار دیا ۔

پروردگارا!پس ان پر ایسا بہترین درود و رحمت بھیج کہ جو تونے اپنے نبیوں کی ذریت پر بھیجا تا کہ اس درود سے دنیز و آخرت میں ان کی آنکھیں منور و روشن ہوں،بیشک تو مقتدر کامل اور امور کے حقائق سے آگاہ ہے۔

 

شوق دعا
امام سجاد علیه‎السلام‎ اپنی ایک بہترین دعا میں خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

یا مَنْ قصده الضالون فاصابوه مرشداً و امه الخائفون فوجده معقلا متی راحة من‎نصب لغیرك بدنه ومتی فرح من قصد سواك بنیته؟؛
اے وہ کہ جس کا گمراہوں نے قصد کیا تو ان کی راہنمائی کی اور اسے اپنا مرشد پایا،اور جب خائف اس کی طرف گئے تو اسے اپنے لئے پناہگاہ پایا۔ جو تیرے سوا کسی اور کے لئے اپنے بدن کو بپا کرے اور تیرے علاوہ کسی اور کے سامنے کھڑا ہو اور خضوع و بندگی کرے اس کے لیے کہاں اور کب راحت و سکون ہے  ؟اور جو تیرے علاوہ کسی اورکی نیت کرے تواس کے لئے کہاں فرحت و نشاط ہے؟
(نیایش در عرفات، ص۱۴)

 

امام سجاد علیه السلام اور خوف الٰہی
سفیان‎بن عیینه کی روایت میں ہے كه حضرت زین العابدین علیه‎السلام‎ حج انجام دیا. اور جن آپ نے محرم ہونا چاہا تو آپ کی سواری رکی ،آپ کا رنگ زرد ہو گیا اور آپ لرزنے لگے۔ کانپنے اور لرزہ طاری ہو جانے کی وجہ سے آپ لبیک  نہیں کہہ سکتے تھے۔سفیان کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:آپ تلبیہ (لبیک اللھمّ لبیک ۔۔۔)کیوں نہیں کہہ رہے؟
آپ  نے فرمایا:میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں میرے جواب میں یہ نہ کہا جائے: لا لبیك و لا سعدیك. تلبیہ کہنے کے بعد غش كھا گئے اور سواری سے زمین پر گر گئے اور حج کے اختتام تک آپ کی یہ ہی حالت رہی. (سفرنامه حج، ص۳۱۸)

 

امام سجاد علیه السلام کی مدح میں فرزدق کے اشعار
هشام بن عبدالملك اپنے باپ کی حکومت کے زمانے میں مكه معظمه مشرف ہوا،جب وہ طواف بجا لایا تو اس نے حجر اسود کو بوسہ کرنا چاہا مگر زیادہ ہجوم کی وجہ سے نہ کر سکا،اس کے لئے منبر رکھا گیا تا کہ اس پر بیٹھ جائے۔

اسی دوران حضرت علی بن الحسین زین العابدین علیه السّلام‎تشریف لائے(جب کہ آپ نے پاجامہ و ردا پہنی ہوئی تھی اور سب سے خوبصورت نظر آرہے تھے اور آپ سے خوشبو آرہی تھی)اور آپ نے طواف کرنا شروع کر دیا،ہر چکر میں جب آپ حجر الأسود کے پاس پہنچتے تو آنحضرت کے احترام میں لوگ  ایک طرف ہو جاتے تا کہ حسین علیہ السلام کے عزیز فرزند حجر اسود کو بوسہ کر لیں۔
اس موقع پر کہ جب ہر کوئی حجر اسود کو بوسہ کرنا چاہتا تھا، آنحضرت کے لئے لوگوں کے اس احترام کو دیکھ کر ہشام غصہ میں آگیا،اہل شام میں سے ایک شخص نے اس سے پوچھا: یہ کون ہیں کہ جنہیں لوگ اس قدر عزت و احترام دیکھ رہے ہیں اور ان کے احترام میں حجر اسود سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں؟ہشام نے یہ سوچ کر کہ  کہیں شامی آنحضرت کو پہچان  نہ لیں،لہذا اس نے کہا کہ میں انہیں نہیں جانتا۔وہاں فرزدق موجود تھے انہوں نے کہا:میں ان کا تعارف کرواتا ہوں۔شامی شخص نے کہا: اے ابو فراس(فرزدق)وہ کوں ہیں ؟
یہاں فرزدق نے اپنے وہ مشہور اشعار کہے:
هذَا الَّذی تَعْرِفُ الْبَطْحاءُ وَطْأَتَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَالْبَیْتُ یَعْرِفُهُ، وَالحِلُّ وَالْحَرَمُ
هذَا ابْنُ خَیْرِ عِبادِ الله كُلِّهِمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔هذَا التَّقِی النَّقِی الطاهِرُ العَلَمُ
هذَا ابْنُ فاطِمَةَ اِنْ كُنْتَ جاهِلَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِجَدِّهِ اَنْبِیاءُ الله قَدْ خُتِمُوا

یہ وہ ہیں کہ جن کی جائے پا کو بطحا کی خاک پہچانتی ہے ،كعبه و حلّ و حرم انہیں پہچانتے ہیں۔

یہ خدا کے بہترین بندوں کا  فرزند ہے ، یہ پرهیزگار، پاكیزه، پاك اور مشہور و معروف ہیں.
یہ فرزند فاطمہ ہیں!اگر انہیں نہیں جانتے تو (جان لو)خدا کے نبیوں کا سلسلہ ان کے جد پر اختتام پذیر ہوا.(پرتوی از عظمت امام حسین علیه السلام، ص۴۳۱)

 

امام سجاد علیہ السلام کے نورانی كلمات
- اس خاندان(خاندان پیغمبر صلی الله علیه و آله)کی خصائص میں سے ایک ایسی محبت ہے کہ جسے خداوند متعال نے مؤمنین کے دلوں میں قرار ہے. (پرتوی از عظمت امام حسین علیه السلام، ص۴۳۰)
- دنیا کی زندگی کی خوبصورتی سے ڈرو اور اس کے دھوکہ و فریب اور شر سے ڈرو اور دنیا کی طرف مائل ہونے کے نقصان کی طرف متوجہ رہو کیونکہ دنیا کی زینت و خوبصورتی آزمائش ہے اور اس کی طرف مائل ہونا گناہ.(ترجمه بحار الأنوار،جلد ۱۷ص۱۱۸)
- اےخدا کے بندو! خدا سے ڈرو اور غور و فکر کرو، اور جس کام کے لئے خلق کئے گئے ہو اسے انجام دو۔ (ایضاً، ص۱۱۹)
- ایک شخص امام سجاد علیه السلام کی خدمت میں آیا ہے: خدایا!مجھے لوگوں سے بےنیاز کردے، آنحضرت نے فرمایا:یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ لوگوں کو این دوسرے کی ضرورت ہے،بلکہ کہو خدایا!مجھے شریر لوگوں کا محتاج نہ کر،

- جو اپنے لئے اہمیت کا قائل ہو اس کی نظر میں دنیا بے ارزش ہو جاتی ہے.(ایضاً، ص۱۲۳)

 

Monday / 12 October / 2015